خواجہ ثاقب غفور
لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دئیے گئے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی (خفیہ) ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ صوبے (بلوچستان) میں لاپتہ افراد کی فہرست بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کی گئی ہے۔ بیرونی مداخلت کا مقصد صوبے کے حالات خراب کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ بلوچ عوام کے مسائل کے حل کے لئے نہ اقدامات اٹھائے گئے نہ کوئی موثر پالیسی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بعض سوالات کے جوابات میں کہا کہ کمشن صرف کاغذی کارروائی نہیں کرے گا بلکہ ذمہ داروں کا تعین بھی کرے گا۔ 6 تشدد زدہ نعشیں ملی ہیں‘ مقدمات درج کرا دئیے ہیں رپورٹ مانگ لی ہے اگر تفتیش میں کسی بھی ادارے کے سربراہ یا شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ ک ان اداروں کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے اور وہ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے 945 افراد کی فہرست کمشن کو بھیجی تھی جن میں سے 45 افراد کے کوائف نامکمل تھے۔ یہ لسٹ واپس حکومت کو بھیجی تاہم حکومت بلوچستان کی جانب سے ابھی تک نوترتیب شدہ فہرست نہیں ملی۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد صرف 57 ہیں، پنجاب سے 117‘ سندھ سے 174‘ خیبر پی کے سے 170‘ اسلام آباد سے 18اور فاٹا کشمیر سے 12‘ 12شامل ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور لاپتہ افراد (غائب) کے معاملے میں بیرونی خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ (نوائے وقت 10 جون 2012ئ) لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ہوشربا انکشافات نے بلوچستان آزادی موومنٹ کے ملک اور بیرون ملک لیڈران کے 6000 تا 9000 بلوچ جوانوں کے لاپتہ ہونے کے دعووں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ خود حکومت بلوچستان نے کمیشن کے سربراہ کو 945 افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ بھجوائی تھی جس میں سے 45 کے کوائف نامکمل تھے جو واپس بھیجی گئی اور تاحال نئی فہرست مکمل کوائف سے سامنے نہیں آئی جو قابل مذمت ہے کہ یہ بہرحال ملک کا ایک سنگین اور میڈیا پر ایک سال سے اچھالے جانے والا حساس معاملہ ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے صوبہ بہ صوبہ لاپتہ افراد کی تفصیلات بھی دے دی ہیں جو 30 مئی 2012ءتک کی ہیں اس میں جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ بلوچستان سے صرف 57 افراد لاپتہ ہیں جبکہ وہ خود ذکر کر رہے تھے کہ بلوچستان حکومت نے 945 افراد کی فہرست دی۔ یہ تضاد حیران کن ہے۔ کیا بلوچستان حکومت کی رپورٹ بھی غلط تھی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال تو صرف 57 افراد ”غائب“ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ چار مہینے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے بھی اقوام متحدہ کے حوالے سے بیان دیا تھا کہ بلوچ جوان صرف 47 لاپتہ ہیں۔ بلوچستان حکومت کا دعویٰ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب لاپتہ افراد کے کمشن کا سربراہ یہ بیان دے کہ صرف 57 افراد لاپتہ ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ابہام یا حقائق دونوں صورتوں میں پارلیمنٹ اور میڈیا میں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری اہم بات جسٹس جاوید اقبال یہ فرماتے ہیں کہ ”لاپتہ افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہے۔“
جناب جاوید اقبال کا اشارہ بلوچستان آزادی موومنٹ‘ بلوچ لبریشن آرمی‘ فرنٹ اور بلوچ ناراض گروپ کی طرف ہے جو ایک سال سے میڈیا اور قوم سے لگاتار غلط بیانی کرتے رہے ہیں کہ 5000 سے 9000 تک بلوچ جوان اٹھا کر ایجنسیوں‘ اسٹیبلشمنٹ نے غائب کر دئیے ہیں اور مسخ شدہ نعشیں بھی ان میں سے بعض ”پھینک“ رہے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے صرف 57 بلوچ افراد کو لاپتہ تسلیم کیا ہے۔ اس بیان نے ان بلوچ سرداروں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے جو ہزاروں لاپتہ بلوچوں کے دعوے کرکے ”آزاد بلوچستان سے کم پر بات نہ ہو گی“ تحریک میں ”اضافہ“ کرنے اور عالمی فورموں‘ اقوام متحدہ‘ امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں بلوچ مسئلہ پر قراردادیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اقدامات کرانے میں ملوث ہیں۔ یہ پنجابیوں کا بھی مطالبہ ہے کہ بلوچ ہمارے بھائی اور بازو ہیں! البتہ وہ بلوچ ناراض قیادت جو ساری دنیا اور میڈیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے پیش پیش ہیں ان کے فلسفے‘ مطالبات‘ شکایات سے پاکستانی قوم متفق نہیں کیونکہ ملکی سلامتی کے خلاف قدم تو خود آئین‘ اسلام‘ قانون سے ”بغاوت“ ہوتا ہے! ملک توڑنے کی اجازت تو کوئی حکومت‘ فوج‘ میڈیا نہیں دیتا۔ افسوس یہ ہے کہ یہ بلوچ جوانوں میں فوج اور پنجاب کے خلاف شدید جذبات پیدا کرنے میں میڈیا کے بڑے نام نہاد اینکر بھی شامل ہیں۔ جو بلاتحقیق‘ اپنے مذموم مقاصد‘ غیر ملکی سفارت کاروں سے ایجنڈا لے کر دو سال سے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جھوٹے اعداد و شمار کے سہارے مہم چلاتے رہے۔ ان اینکرز کے خفیہ مقاصد کیا تھے؟ کیا کسی نے ڈالرز‘ امریکی ویزے‘ پاونڈز لئے؟ کیوں ایسے دعوے کئے گئے کہ ملک میں فوج اور آئی ایس آئی ہی اغوا کار‘ قاتل‘ دہشت گرد خفیہ ادارے ہیں؟ اب یہ امن کی آشا والے جواب دیں کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال صرف 57 لاپتہ بلوچوں کا کہتے ہیں شرم مگر ان کو نہیں آتی!!
لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دئیے گئے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرونی (خفیہ) ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ صوبے (بلوچستان) میں لاپتہ افراد کی فہرست بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کی گئی ہے۔ بیرونی مداخلت کا مقصد صوبے کے حالات خراب کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ بلوچ عوام کے مسائل کے حل کے لئے نہ اقدامات اٹھائے گئے نہ کوئی موثر پالیسی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بعض سوالات کے جوابات میں کہا کہ کمشن صرف کاغذی کارروائی نہیں کرے گا بلکہ ذمہ داروں کا تعین بھی کرے گا۔ 6 تشدد زدہ نعشیں ملی ہیں‘ مقدمات درج کرا دئیے ہیں رپورٹ مانگ لی ہے اگر تفتیش میں کسی بھی ادارے کے سربراہ یا شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ ک ان اداروں کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے اور وہ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے 945 افراد کی فہرست کمشن کو بھیجی تھی جن میں سے 45 افراد کے کوائف نامکمل تھے۔ یہ لسٹ واپس حکومت کو بھیجی تاہم حکومت بلوچستان کی جانب سے ابھی تک نوترتیب شدہ فہرست نہیں ملی۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد صرف 57 ہیں، پنجاب سے 117‘ سندھ سے 174‘ خیبر پی کے سے 170‘ اسلام آباد سے 18اور فاٹا کشمیر سے 12‘ 12شامل ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور لاپتہ افراد (غائب) کے معاملے میں بیرونی خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ (نوائے وقت 10 جون 2012ئ) لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ہوشربا انکشافات نے بلوچستان آزادی موومنٹ کے ملک اور بیرون ملک لیڈران کے 6000 تا 9000 بلوچ جوانوں کے لاپتہ ہونے کے دعووں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ خود حکومت بلوچستان نے کمیشن کے سربراہ کو 945 افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ بھجوائی تھی جس میں سے 45 کے کوائف نامکمل تھے جو واپس بھیجی گئی اور تاحال نئی فہرست مکمل کوائف سے سامنے نہیں آئی جو قابل مذمت ہے کہ یہ بہرحال ملک کا ایک سنگین اور میڈیا پر ایک سال سے اچھالے جانے والا حساس معاملہ ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے صوبہ بہ صوبہ لاپتہ افراد کی تفصیلات بھی دے دی ہیں جو 30 مئی 2012ءتک کی ہیں اس میں جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ بلوچستان سے صرف 57 افراد لاپتہ ہیں جبکہ وہ خود ذکر کر رہے تھے کہ بلوچستان حکومت نے 945 افراد کی فہرست دی۔ یہ تضاد حیران کن ہے۔ کیا بلوچستان حکومت کی رپورٹ بھی غلط تھی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال تو صرف 57 افراد ”غائب“ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ چار مہینے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے بھی اقوام متحدہ کے حوالے سے بیان دیا تھا کہ بلوچ جوان صرف 47 لاپتہ ہیں۔ بلوچستان حکومت کا دعویٰ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب لاپتہ افراد کے کمشن کا سربراہ یہ بیان دے کہ صرف 57 افراد لاپتہ ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ابہام یا حقائق دونوں صورتوں میں پارلیمنٹ اور میڈیا میں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری اہم بات جسٹس جاوید اقبال یہ فرماتے ہیں کہ ”لاپتہ افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہے۔“
جناب جاوید اقبال کا اشارہ بلوچستان آزادی موومنٹ‘ بلوچ لبریشن آرمی‘ فرنٹ اور بلوچ ناراض گروپ کی طرف ہے جو ایک سال سے میڈیا اور قوم سے لگاتار غلط بیانی کرتے رہے ہیں کہ 5000 سے 9000 تک بلوچ جوان اٹھا کر ایجنسیوں‘ اسٹیبلشمنٹ نے غائب کر دئیے ہیں اور مسخ شدہ نعشیں بھی ان میں سے بعض ”پھینک“ رہے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے صرف 57 بلوچ افراد کو لاپتہ تسلیم کیا ہے۔ اس بیان نے ان بلوچ سرداروں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے جو ہزاروں لاپتہ بلوچوں کے دعوے کرکے ”آزاد بلوچستان سے کم پر بات نہ ہو گی“ تحریک میں ”اضافہ“ کرنے اور عالمی فورموں‘ اقوام متحدہ‘ امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں بلوچ مسئلہ پر قراردادیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اقدامات کرانے میں ملوث ہیں۔ یہ پنجابیوں کا بھی مطالبہ ہے کہ بلوچ ہمارے بھائی اور بازو ہیں! البتہ وہ بلوچ ناراض قیادت جو ساری دنیا اور میڈیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے پیش پیش ہیں ان کے فلسفے‘ مطالبات‘ شکایات سے پاکستانی قوم متفق نہیں کیونکہ ملکی سلامتی کے خلاف قدم تو خود آئین‘ اسلام‘ قانون سے ”بغاوت“ ہوتا ہے! ملک توڑنے کی اجازت تو کوئی حکومت‘ فوج‘ میڈیا نہیں دیتا۔ افسوس یہ ہے کہ یہ بلوچ جوانوں میں فوج اور پنجاب کے خلاف شدید جذبات پیدا کرنے میں میڈیا کے بڑے نام نہاد اینکر بھی شامل ہیں۔ جو بلاتحقیق‘ اپنے مذموم مقاصد‘ غیر ملکی سفارت کاروں سے ایجنڈا لے کر دو سال سے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جھوٹے اعداد و شمار کے سہارے مہم چلاتے رہے۔ ان اینکرز کے خفیہ مقاصد کیا تھے؟ کیا کسی نے ڈالرز‘ امریکی ویزے‘ پاونڈز لئے؟ کیوں ایسے دعوے کئے گئے کہ ملک میں فوج اور آئی ایس آئی ہی اغوا کار‘ قاتل‘ دہشت گرد خفیہ ادارے ہیں؟ اب یہ امن کی آشا والے جواب دیں کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال صرف 57 لاپتہ بلوچوں کا کہتے ہیں شرم مگر ان کو نہیں آتی!!