جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے بزدل ہوتے ہیں‘ وہ پرلے درجے کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ خود کو مار لینا دنیا کی سب سے بڑی جرات ہے۔ خود کو مارنے کے لئے بڑا حوصلہ بڑا جگرا چاہئے۔ ذرا سی سوئی بھی چبھ جائے‘ معمولی سی خراش بھی آجائے تو جان نکل جاتی ہے۔ ذرا سا حبس بڑھ جائے‘ گھٹن ہو جائے یا کسی عارضہ کی وجہ سے سانس کی آمدورفت میں دقت ہو جائے تو جان ہتھیلی پر آجاتی ہے اور بدترین سے بدترین‘ جابر و قاہر‘ مکار و منافق کوئی بھی ہو‘ سب کچھ بھول کر چاہتا ہے کہ اس کی سانسیں بحال ہو جائیں۔ وہ اس اذیت ناک تکلیف سے باہر نکل آئے۔ اپنی جان لینا کوئی محفل نہیں ہے۔ اس دلفریب دنیا کو چھوڑنا آسان نہیں ہے۔ اپنے پیاروں سے جدا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اپنی جان کو خود ہلاک کرنے کے لئے بہت بڑا دل چاہئے۔ انسان یونہی نہیں مر جاتا۔ مرنے کے لئے‘ اپنی جان نکالنے کے لئے بڑی ہمت اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر روز پندرہ سولہ افراد خود کشی کر لیتے ہیں۔ جبکہ خود کشی کی سالانہ تعداد پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں ایک ہولناک تعداد وہ ہے جو دن رات خود کشی کے منصوبے بناتے اور زندگی سے نجات کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 18 ہزار افراد مرنے کا ارادہ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کانٹوں بھری اذیتناک زندگی سے نجات حاصل کر لیں لیکن مرنے کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود یہ لوگ صرف دو وجوہات کی وجہ سے موت سے ہم آغوش نہیں ہوتے کیونکہ ایک تو اپنی جان لینے کی ان میں ہمت اور جرات نہیں ہوتی‘ دوسرے خود کشی کے نتیجے میں خاندان والوں کو مرنے کے بعد جس ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.... وہ موت سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ یہ داغ زندگی بھر کے لئے اس خاندان کے دامن کو داغدار کر دیتا ہے کہ اس خاندان کے کسی فرد نے خود کشی کر لی ہے۔ گذشتہ روز صرف پنجاب میں تین رپورٹ ہونے والی خود کشیاں بڑی دردناک کہانیاں لئے ہوئے ہیں۔ گوجرانوالہ کی آسیہ نامی عورت غربت اور افلاس سے تنگ آکر اپنی تین بیٹیوں سمیت نہر میں کود گئی۔ 2 معصوم بچیاں تڑپ تڑپ کر مر گئیں لیکن نہر پر موجود لوگوں نے آسیہ اور اس کی ایک بیٹی کو بے ہوشی کی حالت میں پانی سے نکال لیا۔ یہ عورت اب ہمیشہ کے لئے زندہ درگور ہو گئی ہے۔ اسے زندگی بھر یہ احساس جینے نہیں دے گا کہ لاش کی طرح زندہ اور اپنی دو بیٹیوں کی موت کی ذمہ دار ہے۔ خود کشی پر کیس الگ بنے گا۔ دوسری کہانی رحیم یار خان میں پانچ کمسن بچوں کی بیوہ ماں کی ہے جس نے غربت اور حالات کی ابتری سے عاجز آکر بالآخر خود کشی کر لی۔ ان بچوں کی اب کون کفالت کرے گا؟ ظاہر ہے کہ پہلے ماں تھی اب تو کوئی نہیں بچا۔ یہ بچے بھی حالات کے آگے سرنگوں ہو جائیں گے۔ کوئی بھوک سے مرے گا اور کوئی خود کشی کرے گا۔ تیسرا کیس ایک تعلیم یافتہ نوجوان عارف کا ہے جو پوسٹ گریجوایشن کے بعد بھی حکومتی مافیا اور پرائیویٹ سیکٹر کی کڑی شرائط کی وجہ سے پچھلے چھ سال سے بے روزگار تھا اور سینکڑوں درخواستیں‘ اپنی ڈگریوں کی فوٹو کاپیاں جمع کروا کر آخری تاریخوں تک امیدیں وابستہ رکھتا۔ انٹرویو بہترین دے کر آتا لیکن ہر بار ناکامی.... کیونکہ حکومتی کارندے اپنی بھائی بندے اور سفارشی لوگوں کو رکھ لیتے تھے۔ آخرکار اس نے نیلا تھوتھا پھانک لیا اور روز روز کی ٹوٹی امیدوں‘ خواہشات کے جنازوں اور اپنی ڈگریوں کی بے توقیری اور ذلتوں کے آگے شکست مان لی اور اپنی جان لے لی۔ دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے جہاں خود کشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈوب مرنا چاہئے حکمرانوں اور نام نہاد سیاستدانوں کو‘ جن کے پاس بی اے کی ڈگری تک نہیں ہے۔ اپنی نام نہاد میٹرک کی اکلوتی ڈگری کا صرف دعویٰ کر سکتے ہیں۔ باقی ڈگریاں جعلی ہوتی ہیں مگر اللہ کی شان ہے کہ یہ لوگ مشیر وزیر اور اس سے بھی بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ کروڑوں روپیہ سالانہ کے حساب سے کھا جاتے ہیں۔ سوائے کرپشن اور عیاشی کے ان کے کریڈٹ پر کوئی کام نہیں ہے۔ معلوم نہیں کون سی نوجوانوں کے لئے روزگار سکیمیں کہاں شروع کی جاتی ہیں۔ کبھی کسی روزگار سکیم یا حکومتی سیکٹر میں کسی کو میرٹ پر آتے تو نہیں دیکھا۔ کبھی کسی غریب‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو میرٹ پر لیتے ہوئے نہیں سنا۔ سب اپنے ہی سفارشی لوگ ہوتے ہیں نکمے نالائق اور نااہل‘ سفارش اور رشوت ہمیشہ ایسے افراد کی کی جاتی ہے جن کے اپنے پاس کوئی اہلیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح عورتوں کے لئے اربوں روپوں کی گرانٹس‘ مراعات‘ قرضوں‘ ملازمتوں کے بلند بانگ اعلانات ہوتے ہیں لیکن آج بھی پاکستان میں 70 فیصد عورتیں کمتر عہدوں اور معمولی تنخواہوں پر اپنی ذہانتوں اور لیاقتوں کا خون کر رہی ہیں۔ بجٹ میں جو ترقیاتی اور عوامی بہبود کے کھربوں کے منصوبے پیش کئے جاتے ہیں۔ آج تک کسی ایک منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچتے نہیں دیکھا گیا۔ خدا جانے یہ کھربوں کی رقمیں کن کے پیٹوں میں جاتی ہیں۔ یہ خوشنما اعداد و شمار‘ تمام فوائد ثمرات مراعات کی آپس میں بندر بانٹ ہو جاتی ہے۔ اگر عوام تک یہ مراعات پہنچتیں تو کبھی خود کشیوں کی نوبت نہ آتی۔ پاکستان میں حکمرانوں نے جو ظلم اور کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے تو وہ وقت بھی دور نہیں جب خود کشی کی باریاں ان کی لگیں گی تب پتہ چلے گا کہ موت کو کیسے گلے لگایا جاتا ہے۔ میرا شعر اسی صورتحال کا عکاس ہے۔
دیکھ کر موت کی روانی کو
کھو چکی موج زندگانی کو
دیکھ کر موت کی روانی کو
کھو چکی موج زندگانی کو