احمقوں کی جنت میں رہتا ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ آزاد میڈیا جنرل مشرف کی عنایت ہے۔ حقیقتاً عالمی سطح پر پاکستان میں میڈیا کو آزاد کرنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ چین کی معاشرتی ترقی، پاکستان اور انڈیا کے ایٹمی دھماکے، کارگل وار سمیت بہت سے ایسے عوامل تھے کہ جنہوں نے عالمی طاقتوں کی نگاہیں اس خطے پر مرکوز کر دی تھیں لہٰذا جس خطے میں ”گریٹ گیم“ پلان کی جاری تھی، وہاں سے پل پل کی خبر ملنا ازحد ضروری تھا اور یہ کام عالمی میڈیا کے ذریعے مشکل تھا۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار رکھنا ایک اور اہم مقصد تھا۔
9/11کے سانحے کے بعد میڈیا ہاوسز کھلنے ہی تھے اور میڈیا آزاد ہونا ہی تھا خواہ جنرل مشرف چاہتے یا نہ چاہتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ منصوبہ سازوں سے بڑا منصوبہ ساز ہے سو اس نے اس منصوبے میں سے بھی ہمارے لئے خیر کا پہلو نکال دیا۔ جہاں میڈیا کی آزادی عالمی طاقتوں کے کام آئی وہاں اس سے عام آدمی کے مسائل اجاگر ہوئے۔ طاقتور اشرافیہ جس کا نام لینے سے زبان جلا کرتی تھی سرعام ڈسکس ہونے لگی۔ الیکٹرانک میڈیا کے باعث حکمرانوں کی کرپشن کا پردہ زیادہ سرعت سے چاک ہونے لگا۔ کلمہ حق عوام کی زبان سے عوام تک پہنچنے لگا۔ تصویر یوں بھی تحریر سے زیادہ اثر رکھتی ہے لہٰذا رائے عامہ بدلنے لگی جس کا مظاہرہ ہمیں عدلیہ تحریک میں نظر آیا۔ تب ہی آزاد میڈیا کے نمو پاتے ہی حکمرانوں نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر دی تاکہ انفارمیشن کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اگر پیمرا کی تشکیل کا کوئی اور مقصد کسی صاحب کے علم میں ہو تو مجھے ضرور بتائے۔ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ملک میں انڈین ڈراما چینلز فخریہ اور کھلم کھلا ہندوستانی ثقافت گھر گھر میں سرایت کر رہے ہیں مگر پیمرا خاموش ہے، کیبل چینلز پر اخلاق باختہ فلمیں اور بازاری مجرے مع خسرے دکھائے جا رہے ہیں مگر پیمرا کی زبان گنگ ہے۔ پرائیویٹ چینلز بھارتی فلموں اور گانوں کی تشہیر انکی خبر بنا کر کر رہے ہیں مگر پیمرا کے قوانین متاثر نہیں ہوتے۔ اخلاق باختہ پاکستانی ہیروئین کی انڈیا میں بازاری حرکات یہاں بریکنگ نیوز بنا کر پیش کی جاتی ہیں مگر پیمرا کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پاکستانی ڈراموں میں مغربی لباس کو ہمارا کلچر دکھایا جاتا ہے مگر پیمرا کے کان پر جون نہیں رینگتی۔ پچھلے دنوں ایک ایف ایم ریڈیو پر ایک نجی ڈانس پارٹی کی براہ راست کمنٹری سنائی گئی مگر پیمرا کو جاگ نہیں آئی مگر اس پیمرا میں اتنی ہمت ضرور ہے کہ توہین عدالت کر سکے اور کیوں نہ ہو کہ جس ملک کا وزیر اعظم توہین عدالت کا فخریہ مرتکب ہو سکتا ہے وہاں محکموں کو کون روک سکتا ہے۔ جس ملک کا چیف ایگزیکٹو عدالت کی پرواہ نہ کرے وہاں کئی پستہ قد عدالت کا مذاق اڑانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جہاں قاضیوں کا تمسخر اڑایا جانے لگے وہاں سے انصاف دامن سمیٹ کر گزرتا ہے۔ یہی معاشرے ظلم کے معاشرے کہلاتے ہیں ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا“
9/11کے سانحے کے بعد میڈیا ہاوسز کھلنے ہی تھے اور میڈیا آزاد ہونا ہی تھا خواہ جنرل مشرف چاہتے یا نہ چاہتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ منصوبہ سازوں سے بڑا منصوبہ ساز ہے سو اس نے اس منصوبے میں سے بھی ہمارے لئے خیر کا پہلو نکال دیا۔ جہاں میڈیا کی آزادی عالمی طاقتوں کے کام آئی وہاں اس سے عام آدمی کے مسائل اجاگر ہوئے۔ طاقتور اشرافیہ جس کا نام لینے سے زبان جلا کرتی تھی سرعام ڈسکس ہونے لگی۔ الیکٹرانک میڈیا کے باعث حکمرانوں کی کرپشن کا پردہ زیادہ سرعت سے چاک ہونے لگا۔ کلمہ حق عوام کی زبان سے عوام تک پہنچنے لگا۔ تصویر یوں بھی تحریر سے زیادہ اثر رکھتی ہے لہٰذا رائے عامہ بدلنے لگی جس کا مظاہرہ ہمیں عدلیہ تحریک میں نظر آیا۔ تب ہی آزاد میڈیا کے نمو پاتے ہی حکمرانوں نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر دی تاکہ انفارمیشن کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اگر پیمرا کی تشکیل کا کوئی اور مقصد کسی صاحب کے علم میں ہو تو مجھے ضرور بتائے۔ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ملک میں انڈین ڈراما چینلز فخریہ اور کھلم کھلا ہندوستانی ثقافت گھر گھر میں سرایت کر رہے ہیں مگر پیمرا خاموش ہے، کیبل چینلز پر اخلاق باختہ فلمیں اور بازاری مجرے مع خسرے دکھائے جا رہے ہیں مگر پیمرا کی زبان گنگ ہے۔ پرائیویٹ چینلز بھارتی فلموں اور گانوں کی تشہیر انکی خبر بنا کر کر رہے ہیں مگر پیمرا کے قوانین متاثر نہیں ہوتے۔ اخلاق باختہ پاکستانی ہیروئین کی انڈیا میں بازاری حرکات یہاں بریکنگ نیوز بنا کر پیش کی جاتی ہیں مگر پیمرا کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پاکستانی ڈراموں میں مغربی لباس کو ہمارا کلچر دکھایا جاتا ہے مگر پیمرا کے کان پر جون نہیں رینگتی۔ پچھلے دنوں ایک ایف ایم ریڈیو پر ایک نجی ڈانس پارٹی کی براہ راست کمنٹری سنائی گئی مگر پیمرا کو جاگ نہیں آئی مگر اس پیمرا میں اتنی ہمت ضرور ہے کہ توہین عدالت کر سکے اور کیوں نہ ہو کہ جس ملک کا وزیر اعظم توہین عدالت کا فخریہ مرتکب ہو سکتا ہے وہاں محکموں کو کون روک سکتا ہے۔ جس ملک کا چیف ایگزیکٹو عدالت کی پرواہ نہ کرے وہاں کئی پستہ قد عدالت کا مذاق اڑانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جہاں قاضیوں کا تمسخر اڑایا جانے لگے وہاں سے انصاف دامن سمیٹ کر گزرتا ہے۔ یہی معاشرے ظلم کے معاشرے کہلاتے ہیں ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا“