امیر نواز نیازی
اگلی رات ٹی وی کے ایک چینل پر مذاکرہ چل رہا تھا جس میں 27مئی کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والا عمران خان کا جلسہ زیربحث تھا۔ تحریک انصاف کے ایک نمائندے اس جلسے کو لیاقت باغ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دے رہے تھے تو مخالف جماعت کے ایک رہنما اسے ناکام جلسہ کہنے پر بضد تھے تحریک انصاف والے صاحب جلسہ میں آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بتا رہے تھے تو مخالفت برائے مخالفت کرنے والے حزب اختلاف کے نمائندے اسے 15ہزار سے زیادہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ جبکہ ہم جیسے ٹی وی دیکھنے والوں کے لئے ان میں یہ تضاد اور تکرار درد سر بنا ہوا تھا تو ٹی وی والے اپنے طور پر اس کراﺅڈ کو بار بار سکرین پر دکھاتے چلے جا رہے تھے، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ گن سکتے ہو تو خود گن لو کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔
اس پر ہمیں نشے میں دھت دو نشئیوں کے درمیان، ایک تاروں بھری رات ہونے والی گفتگو یاد آ گئی۔ جو کچھ یوں تھی کہ ایک نشئی دوسرے سے پوچھنے لگا کہ کیا تم آسمان کے تارے گن سکتے ہو تو دوسرے نے ترت جواب دیا کیوں نہیں؟ تو پہلے نے کہا پھر گن کر بتاﺅ۔ تو ایک تھوڑے سے تاسف کے بعد دوسرے نے اپنی تمام تر گنتی کی بساط کے مطابق جواب دیا، اتنے کھرب، اتنے ارب، اتنے کروڑ، اتنے لاکھ، اتنے ہزار اور اتنے سو جمع دس۔ تو پہلے نے کہا نہیں میں نہیں مانتا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ تو دوسرے نے کہا یہ اگر غلط ہے تو تم ہی گن کر بتا دو۔ تو اس پر وہ کیا جواب دیتا۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا کہ جو تم کہتے ہو درست ہے۔
لیکن ہمارے یہ سیاسی ماہرین شماریات ایسا بھی نہیں کر سکتے۔ یا کر پاتے۔ کہ ان کے لئے یہ اپنی اپنی ان کا معاملہ ہوتا ہے۔ اور پھر سچ میں جھوٹ ملانا اور سچ اور جھوٹ میں نتارا نہ ہونے دینا ان کا شعار ہی نہیں ان کی سیاست کا کمال بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے ہر جلسے کے بعد بجائے اس کے کہ جلسے میں کیا کہا گیا وہ اس کی نوعیت اور اہمیت پر بات کریں عوام کو بلاوجہ جلسے میں شرکاء کی گنتی میں الجھائے رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ جلسے میں رکھی کرسیوں کو گننے میں لگے ہوتے ہیں تو کبھی ”جائے وقوعہ“ کا رقبہ نکال کر اس میں سما جانے والی انسانی جانوں کا تعین کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ کسی ایک تعداد پر متفق نہیں ہوتے کہ قوم کو اپنی انہی فروعی اختلافات میں الجھائے رکھنا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔
اب جبکہ ملک میں انتخابات قریب آتے نظر آ رہے ہیں تو ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت متحرک ہو چکی ہے اور وہ اپنا وجود منوانے بلکہ .... دکھانے کے لئے ایسے جلسے جلوسوں کا انعقاد ضروری سمجھتی ہے۔ چنانچہ اب ہر طرف یہی شور برپا ہے۔ ہر پارٹی اپنی اپنی بساط اور منشور کے مطابق ملک کو فتح کرنے کے بڑے بڑے دعوے داغ رہی ہے تو مخالفین پر دلخراش تبروں اور تابڑ توڑ حملوں کی یلغار بھی جاری ہے۔ اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ آگے جو کچھ ہونے والا ہے یہ سب اس کا پیش خیمہ ہی ہے۔
اگلی رات ٹی وی کے ایک چینل پر مذاکرہ چل رہا تھا جس میں 27مئی کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والا عمران خان کا جلسہ زیربحث تھا۔ تحریک انصاف کے ایک نمائندے اس جلسے کو لیاقت باغ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دے رہے تھے تو مخالف جماعت کے ایک رہنما اسے ناکام جلسہ کہنے پر بضد تھے تحریک انصاف والے صاحب جلسہ میں آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بتا رہے تھے تو مخالفت برائے مخالفت کرنے والے حزب اختلاف کے نمائندے اسے 15ہزار سے زیادہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ جبکہ ہم جیسے ٹی وی دیکھنے والوں کے لئے ان میں یہ تضاد اور تکرار درد سر بنا ہوا تھا تو ٹی وی والے اپنے طور پر اس کراﺅڈ کو بار بار سکرین پر دکھاتے چلے جا رہے تھے، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ گن سکتے ہو تو خود گن لو کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔
اس پر ہمیں نشے میں دھت دو نشئیوں کے درمیان، ایک تاروں بھری رات ہونے والی گفتگو یاد آ گئی۔ جو کچھ یوں تھی کہ ایک نشئی دوسرے سے پوچھنے لگا کہ کیا تم آسمان کے تارے گن سکتے ہو تو دوسرے نے ترت جواب دیا کیوں نہیں؟ تو پہلے نے کہا پھر گن کر بتاﺅ۔ تو ایک تھوڑے سے تاسف کے بعد دوسرے نے اپنی تمام تر گنتی کی بساط کے مطابق جواب دیا، اتنے کھرب، اتنے ارب، اتنے کروڑ، اتنے لاکھ، اتنے ہزار اور اتنے سو جمع دس۔ تو پہلے نے کہا نہیں میں نہیں مانتا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ تو دوسرے نے کہا یہ اگر غلط ہے تو تم ہی گن کر بتا دو۔ تو اس پر وہ کیا جواب دیتا۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا کہ جو تم کہتے ہو درست ہے۔
لیکن ہمارے یہ سیاسی ماہرین شماریات ایسا بھی نہیں کر سکتے۔ یا کر پاتے۔ کہ ان کے لئے یہ اپنی اپنی ان کا معاملہ ہوتا ہے۔ اور پھر سچ میں جھوٹ ملانا اور سچ اور جھوٹ میں نتارا نہ ہونے دینا ان کا شعار ہی نہیں ان کی سیاست کا کمال بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے ہر جلسے کے بعد بجائے اس کے کہ جلسے میں کیا کہا گیا وہ اس کی نوعیت اور اہمیت پر بات کریں عوام کو بلاوجہ جلسے میں شرکاء کی گنتی میں الجھائے رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ جلسے میں رکھی کرسیوں کو گننے میں لگے ہوتے ہیں تو کبھی ”جائے وقوعہ“ کا رقبہ نکال کر اس میں سما جانے والی انسانی جانوں کا تعین کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ کسی ایک تعداد پر متفق نہیں ہوتے کہ قوم کو اپنی انہی فروعی اختلافات میں الجھائے رکھنا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔
اب جبکہ ملک میں انتخابات قریب آتے نظر آ رہے ہیں تو ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت متحرک ہو چکی ہے اور وہ اپنا وجود منوانے بلکہ .... دکھانے کے لئے ایسے جلسے جلوسوں کا انعقاد ضروری سمجھتی ہے۔ چنانچہ اب ہر طرف یہی شور برپا ہے۔ ہر پارٹی اپنی اپنی بساط اور منشور کے مطابق ملک کو فتح کرنے کے بڑے بڑے دعوے داغ رہی ہے تو مخالفین پر دلخراش تبروں اور تابڑ توڑ حملوں کی یلغار بھی جاری ہے۔ اللہ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ آگے جو کچھ ہونے والا ہے یہ سب اس کا پیش خیمہ ہی ہے۔