وہ قدرے غصے مےں تھا ”بھلا ےہ بھی کوئی فےصلہ ہے“ اےک بوڑھے شخص کو جو قبر مےں ٹانگےں لٹکائے ہوئے لمحہ لمحہ قسطوں مےں مر رہا ہے اسے عمر قےد جبکہ اس کے دو جوان بےٹوں کو سزا سے بچا لےا جائے بھلا ےہ کہاں کا انصاف ہوا“
حسنی مبارک کو عمر قےد کی سزا پر مصری نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا۔ اسکی ان باتوں پر مےڑو مےں موجود اےک اور شخص بول پڑا: ”اصل میں اہل ِمصر کو اےک بار پھر ۵۲ جنوری ۱۱۰۲ءکا سامنا ہے۔ ہم گھوم پھر کر وہیں آگئے ہےںجہاں سے چلے تھے”۔ تم ٹھےک کہتے ہو“۔ اےک بزرگ نے تائےد کر دی ”کوئی تبدےلی نہےں آئی، ہم شاےد دائرے کے سفر مےں ہےں۔“
اس کا جملہ مکمل نہےں ہوا تھا کہ اےک ادھےڑ عمر شخص چےخ چےخ کر کہنے لگا:
”ےہ سب تمہارا قصور ہے! تم لوگ انقلاب کے خواب دےکھ رہے تھے۔ کےا ےہ انقلاب ہے۔ اس سے تو حسنی مبارک کا دور اچھا تھا، کم ازکم امن اور سکون تو تھا۔اتنی مہنگائی تو نہےں تھی۔“ اس پر کچھ نوجوانوں کو غصہ آگےا اور مےڑو مےں اےک شور سا مچ گےا۔ اےک جھٹکے سے ٹرےن رک گئی۔ دےکھا تو مےرا سٹاپ آچکا تھا۔ مےں مےٹرو سے باہر آگےا۔
حسنی مبارک کو عمر قےد کی سزا پر اہلِ مصر اےک عجےب مخمصے کا شکار ہو چکے ہےں۔
بہت سے لوگو ں کو ےقےن تھا کہ حسنی مبارک کو اپنے ساتھےوں سمےت موت کی سزا ہوگی۔لےکن اےسا نہےں ہوا۔ تحرےر چوک اےک بار پھر مظاہرےن سے بھرا ہوا ہے۔ ےوں تو مےدان ِتحرےر اب چھوٹے چھوٹے خےموں اور کھانے پےنے کی دکانوں سے سجا رہتا ہے لےکن حسنی مبارک کی سزا پر انقلابی بہت غصے مےں ہیں۔
غصے کی وجہ ےہ ہے کہ تاحال اُن کے ہاتھ خالی ہےں، انقلاب کے خواب ابھی خواب ہی ہےں اور لوگوں کی زندگی مزےد اجیرن ہو چکی ہے۔ مصر کے حالات پہلے جےسے نہےں رہے۔ لوٹ کھسوٹ اور بد امنی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھرکر دیا ہے، سڑکوں پر ٹریفک ہر وقت جام رہتا ہے۔ پٹرول پمپوں پر گاڑےوں کی قطارےں طوےل سے طوےل تر ہوتی جا رہی ہےں۔ پٹرول کی کوئی قلت نہےںمگر ان گےس سٹےشنوں پر لمبی قطارےں ہےں۔ بعض لوگ کنستر اٹھائے اِن پٹرول پمپوں پر دکھائی دےتے ہےں۔ ان کنستروں مےں پٹرول ذخےرہ کر کے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ٹےکسی ڈرائےور منہ مانگے دام وصول کرتے ہےں، انہےں مےٹر کے مطابق کراےہ ادا کےا جائے تو ”اور“ کا تقاضا کر تے ہےں اور بتاتے ہیں کہ ”دو گھنٹے قطار مےں لگ کر پٹرول ڈلواےا ہے، اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا“ بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔ انقلاب کے موقع پر اہلِ مصر حسنی مبارک کو ہٹائے جانے پر خوش تھے کہ انہوں نے۰۳ سال سے اقتدار پر قابض ڈکٹےٹر کو تخت سے اتارا پھےنکا ہے، انہےں ےقےن تھا کہ اب اُن کی مرضی کی حکومت آئے گی مگر الےکشن کے بعد اسلامی جماعتوں کی اکثرےت کامےاب ہوئی اور ایلےٹ کلاس سہم گئی کہ ےہاں بھی عورت کو برقعہ نہ پہنا دےا جائے اور لبرل ازم ختم ہو جائے۔ غرےب لوگوں نے اخوان المسلمےن کو کامےاب کےا۔ اب انقلابی صدارتی الےکشن کے نتائج سے بھی نالاں ہےں۔ ےہاں دو امےدواروں نے زےادہ ووٹ لےے ہےں۔ اےک اسلامی جماعتوں کا امےدوار احمد مرسی اور دوسرا حسنی مبارک کے دور کا وزےراعظم احمد شفےق ہے۔ انقلابی دونوں کو پسند نہےں کرتے۔ اب حسنی مبارک کی عمر قےد نے انہےں مزےد ”لال پےلا“ کر دےا ہے۔ مےدان تحرےر مےں حسنی مبارک کے ری ٹرائےل کے ساتھ ساتھ صدارتی الےکشن کو ملتوی کرانے کے نعرے بھی لگائے جار ہے ہےں۔
عام آدمی کا حال ےہ ہے کہ وہ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مزےد اپ سےٹ ہو گےا ہے۔ اسے سےاست سے کوئی غرض نہےں، وہ ہر حال مےں سکون، امن اور عزت کی روٹی چاہتا ہے۔ بالکل پاکستانی عوام کی طرح۔ مگر اہلِ سےاست عام آدمی سے کب پوچھ کر فےصلہ کرتے ہےں۔ بعض لوگ کہتے ہےں مصر ی اےک ڈراﺅنا خواب دےکھ رہے ہےں۔ بعض دعائےں مانگتے ہےںکہ ”ےارب حالات اچھے ہوجائےں، مہنگائی کم ہو جائے سکون ہو جائے۔“ بعض دانشور قسم کے لوگ کہتے ہےں ووٹ کا فےصلہ تسلےم ہونا چاہےے۔ ےہی جمہورےت ہے۔ اب صدارتی الےکشن کا دوسرا مرحلہ بھی قرےب ہے۔ دانشوروں کا خےال ہے کہ اس مےں بھی ووٹ کا فےصلہ مانا جائے۔ الےکشن کے نتائج جو بھی ہوں تسلےم کر لےے جائےں تو حالات درست ہو جائےں گے۔ کون جانتا ہے کہ حالات کےا رخ اختےار کر لےں۔۔۔۔ بعض تجزےہ نگاروں کے مطابق، مصر خطرے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لوگوں کا ”جھاکا“ کھل گےا ہے، اب ان سے زبردستی نہےں کی جا سکتی اور یہ کہ تحرےر چوک کبھی خالی نہےں ہو گا۔ مظاہرے پھر شروع ہےں۔ نجانے کب تک جاری رہےں۔ دےکھو کےا ہوتا ہے؟ درجہ حرارت مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ رب خےر کرے۔ اقبال تو فرما گئے ہیں کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
حسنی مبارک کو عمر قےد کی سزا پر مصری نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا۔ اسکی ان باتوں پر مےڑو مےں موجود اےک اور شخص بول پڑا: ”اصل میں اہل ِمصر کو اےک بار پھر ۵۲ جنوری ۱۱۰۲ءکا سامنا ہے۔ ہم گھوم پھر کر وہیں آگئے ہےںجہاں سے چلے تھے”۔ تم ٹھےک کہتے ہو“۔ اےک بزرگ نے تائےد کر دی ”کوئی تبدےلی نہےں آئی، ہم شاےد دائرے کے سفر مےں ہےں۔“
اس کا جملہ مکمل نہےں ہوا تھا کہ اےک ادھےڑ عمر شخص چےخ چےخ کر کہنے لگا:
”ےہ سب تمہارا قصور ہے! تم لوگ انقلاب کے خواب دےکھ رہے تھے۔ کےا ےہ انقلاب ہے۔ اس سے تو حسنی مبارک کا دور اچھا تھا، کم ازکم امن اور سکون تو تھا۔اتنی مہنگائی تو نہےں تھی۔“ اس پر کچھ نوجوانوں کو غصہ آگےا اور مےڑو مےں اےک شور سا مچ گےا۔ اےک جھٹکے سے ٹرےن رک گئی۔ دےکھا تو مےرا سٹاپ آچکا تھا۔ مےں مےٹرو سے باہر آگےا۔
حسنی مبارک کو عمر قےد کی سزا پر اہلِ مصر اےک عجےب مخمصے کا شکار ہو چکے ہےں۔
بہت سے لوگو ں کو ےقےن تھا کہ حسنی مبارک کو اپنے ساتھےوں سمےت موت کی سزا ہوگی۔لےکن اےسا نہےں ہوا۔ تحرےر چوک اےک بار پھر مظاہرےن سے بھرا ہوا ہے۔ ےوں تو مےدان ِتحرےر اب چھوٹے چھوٹے خےموں اور کھانے پےنے کی دکانوں سے سجا رہتا ہے لےکن حسنی مبارک کی سزا پر انقلابی بہت غصے مےں ہیں۔
غصے کی وجہ ےہ ہے کہ تاحال اُن کے ہاتھ خالی ہےں، انقلاب کے خواب ابھی خواب ہی ہےں اور لوگوں کی زندگی مزےد اجیرن ہو چکی ہے۔ مصر کے حالات پہلے جےسے نہےں رہے۔ لوٹ کھسوٹ اور بد امنی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھرکر دیا ہے، سڑکوں پر ٹریفک ہر وقت جام رہتا ہے۔ پٹرول پمپوں پر گاڑےوں کی قطارےں طوےل سے طوےل تر ہوتی جا رہی ہےں۔ پٹرول کی کوئی قلت نہےںمگر ان گےس سٹےشنوں پر لمبی قطارےں ہےں۔ بعض لوگ کنستر اٹھائے اِن پٹرول پمپوں پر دکھائی دےتے ہےں۔ ان کنستروں مےں پٹرول ذخےرہ کر کے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ٹےکسی ڈرائےور منہ مانگے دام وصول کرتے ہےں، انہےں مےٹر کے مطابق کراےہ ادا کےا جائے تو ”اور“ کا تقاضا کر تے ہےں اور بتاتے ہیں کہ ”دو گھنٹے قطار مےں لگ کر پٹرول ڈلواےا ہے، اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا“ بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔ انقلاب کے موقع پر اہلِ مصر حسنی مبارک کو ہٹائے جانے پر خوش تھے کہ انہوں نے۰۳ سال سے اقتدار پر قابض ڈکٹےٹر کو تخت سے اتارا پھےنکا ہے، انہےں ےقےن تھا کہ اب اُن کی مرضی کی حکومت آئے گی مگر الےکشن کے بعد اسلامی جماعتوں کی اکثرےت کامےاب ہوئی اور ایلےٹ کلاس سہم گئی کہ ےہاں بھی عورت کو برقعہ نہ پہنا دےا جائے اور لبرل ازم ختم ہو جائے۔ غرےب لوگوں نے اخوان المسلمےن کو کامےاب کےا۔ اب انقلابی صدارتی الےکشن کے نتائج سے بھی نالاں ہےں۔ ےہاں دو امےدواروں نے زےادہ ووٹ لےے ہےں۔ اےک اسلامی جماعتوں کا امےدوار احمد مرسی اور دوسرا حسنی مبارک کے دور کا وزےراعظم احمد شفےق ہے۔ انقلابی دونوں کو پسند نہےں کرتے۔ اب حسنی مبارک کی عمر قےد نے انہےں مزےد ”لال پےلا“ کر دےا ہے۔ مےدان تحرےر مےں حسنی مبارک کے ری ٹرائےل کے ساتھ ساتھ صدارتی الےکشن کو ملتوی کرانے کے نعرے بھی لگائے جار ہے ہےں۔
عام آدمی کا حال ےہ ہے کہ وہ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مزےد اپ سےٹ ہو گےا ہے۔ اسے سےاست سے کوئی غرض نہےں، وہ ہر حال مےں سکون، امن اور عزت کی روٹی چاہتا ہے۔ بالکل پاکستانی عوام کی طرح۔ مگر اہلِ سےاست عام آدمی سے کب پوچھ کر فےصلہ کرتے ہےں۔ بعض لوگ کہتے ہےں مصر ی اےک ڈراﺅنا خواب دےکھ رہے ہےں۔ بعض دعائےں مانگتے ہےںکہ ”ےارب حالات اچھے ہوجائےں، مہنگائی کم ہو جائے سکون ہو جائے۔“ بعض دانشور قسم کے لوگ کہتے ہےں ووٹ کا فےصلہ تسلےم ہونا چاہےے۔ ےہی جمہورےت ہے۔ اب صدارتی الےکشن کا دوسرا مرحلہ بھی قرےب ہے۔ دانشوروں کا خےال ہے کہ اس مےں بھی ووٹ کا فےصلہ مانا جائے۔ الےکشن کے نتائج جو بھی ہوں تسلےم کر لےے جائےں تو حالات درست ہو جائےں گے۔ کون جانتا ہے کہ حالات کےا رخ اختےار کر لےں۔۔۔۔ بعض تجزےہ نگاروں کے مطابق، مصر خطرے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لوگوں کا ”جھاکا“ کھل گےا ہے، اب ان سے زبردستی نہےں کی جا سکتی اور یہ کہ تحرےر چوک کبھی خالی نہےں ہو گا۔ مظاہرے پھر شروع ہےں۔ نجانے کب تک جاری رہےں۔ دےکھو کےا ہوتا ہے؟ درجہ حرارت مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ رب خےر کرے۔ اقبال تو فرما گئے ہیں کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر