آج بہت دلچسپ خبریں ہیں کہ پڑھ کر ہنسی نہیں رکتی، وزیراعظم کا بیان ہے کہ کارکردگی دکھاؤ ورنہ گھر جاؤ، انہوں نے یہ پیغام اپنے وزراء اور بیوروکریسی کو دیا ہے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ بریفنگ بریفنگ کھیلنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ جب یہ خبر پڑھتے ہیں تو ساتھ ہی ایک خبر ہے کہ قومی احتساب بیورو نے رکن سندھ اسمبلی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا ہے۔ نیب نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو ستائیس جولائی تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔حلقہ پی ایس ننانوے کراچی ایسٹ سے رکن سندھ اسمبلی کے اس کیس میں دو سو ترپن ایکڑ سرکاری زمین کی غیر قانونی فروخت سے متعلق ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ اینٹی کرپشن بھی حلیم عادل شیخ کے خلاف تحقیقات مکمل کر چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی نے سرکاری زمین کا کمرشل استعمال کیا تھا۔
ایک اور خبر ہے کہ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر کی اشتہاری ایجنسی سے کمیشن کے معاملے پر بات کرتے ہوئے آڈیو ٹیپ سامنے آئی ہے اتنی اعلیٰ کارکردگی دنیا کے سامنے آنے کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اجمل وزیر نے کہا ہے کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر مستعفیٰ ہوئے ہیں۔ تیسری خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دو مشیران نے اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ حکومت کے وزیران اور مشیران اتنی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ہیں کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ کیا چن چڑھا رہے ہیں قوم کو اور کیا چاہیے ایسے لوگوں کی اکثریت اور کیا کر سکتی ہے سارا دن ہر وقت تو بولتے رہتے ہیں، گلے پھاڑتے ہیں قوم کو انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے اس سے زیادہ کارکردگی وہ کیا دکھا سکتے ہیں۔ اب بات گھر بھیجنے کی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں گھر بلا کر اہم عہدے ہی کیوں دیے گئے تھے۔ اب اگر ایسے افراد کو عہدے دیے گئے ہیں تو ہھر نتائج بھگتنے کے کیے بھی تیار رہیں۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے بالخصوص حلیم عادل شیخ اور اجمل وزیر کے بارے میں تو کسی کو شبہ نہیں تھا کہ وہ جس انداز میں خبروں میں آئے ہیں ایسے کاموں کے بغیر ان کا گذارہ ہی نہیں ہے۔ وہ ایسی کارروائیوں کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہ تو دن دگنی چار چگنی ترقی کر رہے تھے اس سے سے زیادہ وہ کیا کر سکتے تھے۔ یہ فیصلہ تو لوگوں کو رکھنے سے پہلے کرنا چاہیئے تھا کہ وہ کس قماش کے لوگ ہیں، کیا کرتے رہے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں اب جس کام میں وہ ماہر سمجھے جاتے ہیں انہوں مفلر بدل کر وہ کام اپنے روایتی انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے تو اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان دونوں سے اس سے زیادہ ہم کس کارکردگی کی توقع کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے یہ درست ہے کیونکہ اگر وزیر اعلیٰ اپنی ٹیم کو کنٹرول نہیں کر پا رہے تو پھر ایسے مطالبات سامنے آتے ہیں کیونکہ اہم وزرائ اگر ایسے تنازعات اور سکینڈلز سامنے آتے ہیں تو پھر سوالات جنم لیتے ہیں۔
جہاں تک تعلق وزیر اعلیٰ پنجاب کے دو مشیروں کا ہے وہ جو مظفر گڑھ والا واقعہ ہے جس کی انکوائری بھی مکمل ہو چکی ہے، ہم نے گذشتہ دنوں اس پر روشنی ڈالی تھی اس کے بعد ٹیلیویڑن چینلز پر بھی یہ معاملہ رپورٹ ہوا ہے تو پھر اس پر حقائق اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اوپر تلے ایسے واقعات کے چند اہم پہلو ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ بار بار سیاست دان یا اقتدار و اختیار رکھنے والے افراد مال بنانے کے چکر میں سب کچھ تباہ کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ گذشتہ تین یا اس سے زائد دہائیوں پر مشتمل وہ نظام حکومت ہے جس میں کرپشن کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہر سمجھدار دو جمع دو کے چکروں میں رہتا ہے اور وہ کارکردگی دکھاتے ہوئے دنوں میں زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کارکردگی میں اتنا نکھار آتا ہے کہ وہ دنوں میں لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں میں کھیلنے لگتا ہے۔ مسلسل کرپٹ حکومتوں کی وجہ سے سب کو یقین ہو گیا کہ سیاست کرنے اور حکومت میں آنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ مال بنانا ہے اس کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔ ہر وقت اپنے اردگرد کرپشن دیکھتے دیکھتے اگر کوئی اوپر آتا ہے تو وہ بھی اس رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ سیاست دان بدنام ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وہ مختصر وقت میں ہر طرف سے مال بنانے کی کوشش میں نظام کو بھی داؤ پر لگاتے ہیں۔ پہلے مال اکٹھا کرتے ہیں پھر نام کلیئر کروانے کے لیے اس مال کو لٹاتے ہیں اس کھیل میں عام آدمی کی تباہی جاری رہتی ہے۔
اس کا حل کیا ہے، اس کا حل یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف واپس اپنی بنیاد پر واپس آئے کہ جب تک انتخاب کم سے کم خرچ پر نہ لڑا جائے، پارٹی الیکشن نہ لڑے اس وقت تک میرٹ پر لوگوں کو سامنے نہیں لایا جا سکتا۔ اب لوگ یقین کر چکے ہیں کہ پیسے خرچ کریں، اپنا معیار بلند کریں، انتخاب لڑیں جیت کر اسمبلیوں میں جائیں اور پھر وہ گندا کھیل شروع کر دیں جو تین دہائیوں سے جاری ہے۔
ہم کم خرچ پر انتخابات میں حصہ لینے کی بات کرتے ہیں یہاں تو بدقسمتی ہے کہ پارٹی انتخابات بھی اے ٹی ایم کے بغیر نہیں لڑے جاتے، فنانسر شامل ہوتے ہیں وہ خرچ کرتے ہیں اور یہ اتنے شاطر ہوتے ہیں لاکھوں کو کروڑوں، اور کروڑوں کو اربوں میں بدلنے کے ماہر ہوتے ہیں اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ سارا کام کرتے ہیں۔ اب جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مکمل طور پر حکومت کی ناکامی، پیسے کی ہوس اور مال بنانے کی دوڑ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ سینکڑوں ایکڑ اراضی کو کیا کرنا ہے۔ انسان کو دفن ہونے کے لیے کتنی ہی زمین درکار ہوتی ہے اور وہ زمین بھی خوش قسمت افراد کو ہی میسر ہوتی ہے۔ کروڑوں اربوں کا کیا کرنا ہے کھانے کے لیے انسان کتنا کھا اور اڑا سکتا ہے یہ بنیادی طور پر ایک سوچ کا نام ہے جو گود سے گور تک انسان کو اس مکروہ کھیل میں الجھائے رکھتی ہے کہ ہر حال میں ڈاکے ڈالتے رہوں، سانسیں ختم ہق جائیں گی لیکن یہ حرص ختم نہیں ہوتی۔ کہاں میں میاں نواز شریف، اسحاق ڈار اور وہ تمام جنہوں نے اربوں بنائے لیکن بیبسی کی زندگی گذار رہے ہیں، کیوں کسی اللہ والے پر، کسی نیک نیت پر، مخلوق خدا کی خدمت کرنے والے پر ایسے الزامات کیوں نہیں لگتے کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد جمع کرنا نہیں بلکہ تقسیم کرنا ہوتا ہے وہ تقسیم کرتے کرتے عزت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوتے ہیں اور ڈاکے مارنے والے مال اکٹھا کرتے کرتے اپنے آبائی گھر اور دھرتی ماں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے اس وقت تک کرپشن ختم نہیں ہو سکتی جب تک زندگی گذارنے اور زندگی کے بارے ہمارا فلسفہ بدل نہیں جاتا سب بیکار باتیں ہیں، نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ زہر اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے یہ بیانات یا تقاریر سے ختم ہونے والا نہیں ہے اس کے لیے ہمیں اپنی بنیاد کو بہتر بنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان دنوں جے آئی ٹی کا شور ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلدیہ ٹاؤن سانحے میں جان سے جانے والوں کے ورثاء کو انصاف ملا ہے، کیا افتخار چودھری کی کراچی آمد پر خون بہانے والوں کو سزا ملی ہے، کیا عزیر بلوچ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے ورثاء کو انصاف ملا ہے اگر ایسا نہیں ہو سکا تو سب فضول ہے۔ یہ سب سیاسی بیان بازی ہے، سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور قوم کا وقت ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔ کبھی ایک جماعت وڈیو لیک کرے گی کبھی دوسری کرے گی کیا اس وڈیوز سے انصاف قائم ہو جائے گا، کیا خون کے دھبے دھل جائیں گے، کیا ایسے واقعات کا راستہ رک جائے گا، بالکل نہیں پھر عوام کے حقیقی مسائل کے بجائے یہ کاغذوں میں الجھانے کا مقصد کیا ہے۔ جو تیس سال وہ کرتے رہے ہیں اس کا جواب وہ دیں گے لیکن دو سال جو آپ نے کیا ہے اس کا جواب تحریک انصاف نے دینا ہے۔ ایک طرف جے آئی ٹی کا شور ہے تو دوسری طرف ادارہ شماریات نے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں انتیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ جس معاشرے میں عام آدمی کے لیے ہر نیا دن ایک نئی تکلیف لے کر آئے اس کے لیے آٹا، دال، چینی، گھی، دودھ، سبزیاں، پھل، ادویات مہنگی ہوتی چلی جائیں اس نے جے آئی ٹی رپورٹ کو کھانا ہے یا آگ لگانی ہے۔ جے آئی ٹی کی بحث میں اور سیاست دانوں کی شعلہ بیانیوں سے عام آدمی جل کر راکھ ہو رہا ہے۔ حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے اپوزیشن کے ساتھ لفظی بیان بازی زیادہ اہمیت رکھتی ہے بلکہ اکثر اوقات حکومتی وزراء وہ بحث شروع کر کے قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں جس سے عام آدمی اور ملک کی ستانوے فیصد آبادی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ملک میں زندگی مشکل ہوتی چلی جائے، صحت، تعلیم اور تفریح کے مواقع کم ہوتے چلے جائیں اور آپ یہ کہیں کہ کرپشن کم یا ختم ہو جائے گی یہ ممکن نہیں ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے جو مرضی کر لیں۔
حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ چودھری شجاعت حسین آدھی بات کہہ کر بولنے پر مجبور نہ کریں۔ حافظ صاحب بھی مس کالز کے شوقین ہیں وہ کچھ بولیں تو، ان کے الفاظ کا شدت سے انتظار ہے، مس کالز سے باہر نکلیں اور لب کھولیں یہ جان کر بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، ورنہ یہ یاد رکھیں کہ ان کے بارے تو مولانا فضل الرحمن بہت کچھ بولنا چاہتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پہلے بول پڑیں اور پھر حافظ حسین احمد کو یہ کہنا پڑے کہ مولانا آدھی بات کہہ کر لب کھولنے پر مجبور نہ کریں۔
وزیراعظم نے کشمیر میں بھی بوسنیا جیسی نسل کشی کے خطرے کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کشمیر کے بارے اپنی پالیسی واضح کر لے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو یہ اندازہ ہو سکے کہ حکومت پاکستان کس کے ساتھ ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے، کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، دنیا کو ہٹلر مودی سے خطرہ ہے، ہندوتوا کو فروغ دیا جا رہا ہے، بھارت مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ کر رہا ہے۔ ہمیں ایسے بیانات سے باہر نکل کر بھی سوچنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کشمیری ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔۔۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024