اتوار ‘ 20؍ذیقعد 1441 ھ‘ 12؍جولائی 2020ء
یغور مسلمانوں سے ناروا سلوک‘ امریکہ نے چین کے 14 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی لگا دی
خدا خیر کرے آج کل امریکہ کو چین کے صوبہ سنکیانگ میں آباد یغور مسلمانوں کی یاد کچھ زیادہ ہی ستانے لگی ہے۔ اس کے دل میں رہ رہ کر ان کی محبت کا قلزم ٹھاٹھیں مارنے لگا ہے۔ ویسے ہی جیسے آج سے 35 سال قبل افغانستان کے مسلمانوں کی محبت کا سمندر ان کے دل میں موجزن تھا۔ اسی محبت کا انجام آج تک افغان مسلمان بھگت رہے ہیں۔ غالب نے درست کہا تھا…؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جسکے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اگر امریکہ واقعی مسلمانوں کا خیرخواہ ہے یا انسانی حقوق کا پاسدار ہے‘ اس کے دل میں انسانیت کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو اسے فلسطینی مسلمانوں کی اسرائیل ‘کشمیری مسلمانوں کی بھارت اور روہنگیا مسلمانوں کی میانمار کی حکومت کے ہاتھوں تباہی اور بربادی کیوں نظر نہیں آرہی۔ وہاں تو یغور مسلمانوں کی حالت سے بھی زیادہ بدتر حالات ہیں۔ یہ دوہرا معیار کیوں۔ مزہ تو تب ہے جب امریکہ بھارت‘ اسرائیل اور میانمار پر بھی ایسی ہی پابندیاں لگائے۔ ان کی لگام بھی کھینچے۔ اس طرح اس کی انصاف پسندی کا ڈنکا پوری دنیا میں بجے گا ورنہ صرف چین کے خلاف اس کی بیان بازی اور پابندیاں بے معنی ثابت ہونگی۔ مسلمان پہلے ہی افغانستان سے لے کر شام تک امریکی پالیسیوں کے وبال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بہتر ہے مسلم امہ ازخود اس معاملے میں کوئی درمیانی راہ نکالے۔
٭…٭…٭
زرداری کا گروہ پھر بے نقاب‘ خفیہ ویڈیو بے نقاب کروں گا: علی زیدی
آج تک ہماری سیاست میں بے نقاب کرنے والی بلی کبھی بھی تھیلے سے باہر نہ آسکی مگر اب دیکھنا ہے علی زیدی صاحب کے تھیلے سے کون سی بلی باہر آتی ہے۔اگرتلہ کیس‘ مادر ملت کی ہار‘ تاشقند معاہدہ‘ بنگلہ دیش کا قیام‘ بھٹو کی پھانسی‘ بینظیر کا قتل آج تک ان میں سے کس کے ملزم بے نقاب ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی اگر آج زرداری کے گروہ بے نقاب کرتے ہیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ ورنہ پانی میں مدھانی رگڑنے سے کبھی مکھن نہیں نکلتا۔ تین سال ہو رہے ہیں‘ آج تک حکومت میاں نوازشریف اینڈ فیملی‘ آصف زرداری اینڈ فیملی کے بیرون ملک اربوں کھربوں روپے کے خزانے میں سے ایک پائی ملکی خزانے میں جمع نہ کرا سکی۔ الیکشن میں تو پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ وہ سو دن میں لوٹی ہوئی رقم واپس ملک میں لیکر آئیں گے۔ لوٹ مار کے اس ڈرامے کے ایکٹر اور کریکٹر ہمارے سامنے ہیں مگر حکومت آج تک کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ چینی مافیا‘ آٹا مافیا‘ پٹرول مافیا‘ لینڈ مافیا‘ اسٹیلشمنٹ‘ تاجر‘ دکاندار سب کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ مگر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ثابت ہوتا ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو سعودی عرب کی طرح ان مافیاز کے خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی‘ سرغنوں کو پکڑ کر رقم وصول کرکے ہی چھوڑا جائے۔ اگر ہزار دو ہزار کی قربانی بھی دینی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
٭…٭…٭
آٹا سمگلنگ روکنے پر اینٹی کرپشن اور محکمہ خوراک کی ٹیموں میں تصادم
حکومت کے دو اپنے محکموں کے درمیان یہ جنگ اس وقت ہوئی جب ایک فلور مل سے چوری شدہ سرکاری گندم کا آٹا سمگل کیا جا رہا تھا۔ اطلاع ملنے پر اینٹی کرپشن والے جب موقع واردات پر پہنچے تو وہاں محکمہ خوراک کی چھاپہ مار ٹیم بھی موجود تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ٹیمیں مل کر آٹا سمگل کرنے والوں کو نشانہ عبرت بناتیں۔ معاملہ الٹ نکلا محکمہ خوراک کی ٹیم نجانے کیوں فلور مل مالکان کے ساتھ مل گئی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اس کے پس پردہ عوامل سے محکمہ خوراک والے ہی واقف ہوں گے یا اب اینٹی کرپشن والے معلوم کر کے رہیں گے۔ اس بات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ جو چور اور چوکیدار متحدہ ہو کر حملہ آور ہوئے اور اینٹی کرپشن کا ریکارڈ بھی پھاڑ دیا۔ ویسے بھی کسی کام میں دو نمبری کے لیے جب تک سرکاری محکمہ کی رضا مندی شامل نہ ہو وہ کام ہو نہیں سکتا۔ بجلی کی چوری ہو یا گیس کی ٹیکس کی چور ی ہو یاکوئی اور چوری۔ متعلقہ محکموں کے اہلکارں کی ملی بھگت سے ہی ممکن ہے۔ یہی حال آٹا دال چاول اور چینی کی سمگلنگ کا ہے یہ بھی سرکاری محکموں کی ملی بھگت کی کا مرہون منت ہے۔ گرچہ مقدمہ درج ہو چکا ہے مگر سب کو معلوم ہے کہ ایسے مقدمات کا انجام کیا ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
شہبازشریف میری پارٹی کے آدمی ہیں جو کہوں گا کریں گے‘ شیخ رشید
سچ تو یہ ہے کہ مزاحیہ بیان بازی شیخ جی کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔ جس طرح ماضی میں ملا دو پیازہ، بیربل اور ان سے پہلے ملا نصرالدین کے مزاحیہ لطائف ہمارے ادب کا خوبصورت باب ہیں اسی طرح اب آئندہ مستقبل کی ہماری سیاسی تاریخ جب لکھی جائے گی تو اس میں شیخ رشید کو ’’شیخ چلی‘‘ کے برابر کی حیثیت حاصل ہو گی۔ اب ایک طرف موصوف کہہ رہے ہیں کہ میںموت کے منہ سے واپس آیا ہوں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر وہ بیان بازی میں غلط بیانی سے‘ لاف زنی سے تائب کیوں نہیں ہو رہے۔ وہ تو ابھی تک پہلی والی چال چل رہے ہیں۔ نہ خاموشی اپنائی نہ بن باس لیا۔ حتیٰ کہ ریلوے حادثات کی بہترین شرح پر استعفیٰ تک بات نہیں کی۔ ویسے بھی وہ یک رکنی پارٹی کے تنہا سربراہ اور کارکن ہیں۔ آمدنی کے وسائل اور جائیداد بھی خوب بنائی ہوگی ا س لیے مالی تنگی سے آزاد ہیں۔ اگر وہ باقی زندگی اللہ اللہ کر کے بھی بسر کریں تو انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ رہی بات شہبازشریف کی کہ وہ ان کی پارٹی کے آدمی ہیں تو حیرت کی بات ہے پھر شہبازشریف کو قائد اپوزیشن کیسے بنایا گیا‘ ان کے گھر والوں اور بچوں کیخلاف مقدمات کیوں۔ ان کی نیب و دیگر عدالتوں میں پیشی چہ معنی دارد صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کی راہیں جدا جدا ہیں۔ پھر بھلا شہبازشریف وہ کردار ادا کیسے کر سکتے ہیں جو شیخ جی چاہتے ہیں۔