پاکستان ایٹمی توانائی سے کئی فائدے لے رہا ہے۔ مغربی ملک پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی صلاحیتوں کو ہمیشہ سے ایک ہی زاویہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ مغرب کے صحافی، دانشور اور عسکری امور کے ادارے پاکستان پر ایٹمی ہتھیار بنانے والے ملک کی حیثیت سے توجہ مرکوز کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاکستان کی اپنے دفاع کے لئے ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش کو اسلامی بم حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا رہا ہے، حالانکہ بم نہ اسلامی ہوتا ہے، نہ یہودی اور نہ عیسائی اور نہ ہی ہندو۔ دو مغربی صحافیوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک کتاب لکھ ماری ہے جس کا عنوان ہے ’’ دی اسلامک بم‘‘ اس کتاب میں پاکستان کی طرف سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس طرح کا نقشہ کھینچا گیا کہ پاکستان ایک پراسرار طریقے سے ایٹمی قوت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ مذکورہ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 1974 میں بھارت نے پوکھران میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں ایٹمی سائنسدانوں کا ایک خفیہ اجلاس بتایا جس میں انھوں نے پاکستانی سائنسدانوں سے یہ مشورہ کیا کہ پاکستان کتنے عرصے میں ایٹمی قوت بن سکتا ہے۔
بھٹو کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر بھارت ایٹمی قوت بن گیا تو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے کئی طرح کے خطرات پیدا کر دے گا۔ اس میٹنگ میں پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے کالموں اور انٹرویوز میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی ابتدا ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ملاقاتوں میں ہا لینڈ سے پاکستان آ کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے کام کرنے میں آمادگی اور دوسرے امور پر کھل کر لکھا ہے اللہ کا فضل اور پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئرز کی محنت سے پاکستان ایٹمی قوت بن گیا، اسے ایٹمی قوت بننے سے روکنے کیلئے امریکہ سمیت تمام مغربی ملکوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن وہ ناکام رہے۔ بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کیلئے کئی سازشیں بنائیں لیکن وہ ناکام ہوئیں۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف اب بھی یہ پراپیگنڈہ ہوتا رہتا ہے کہ یہ ہتھیار دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں حالانکہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کیلئے اتنا ہی مضبوط اور موثر نظام قائم کر چکا ہے جتنا کہ کسی دوسرے ایٹمی ملک نے کیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں، اس سارے ماحول میں ہمارے محترم دوست اور کولیگ نصرت مرزا نے نئی کتاب ’’ جوہری نشتر تحقیق برائے امن اور خدمت انسانیت‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے، نصرت مرزا نوائے وقت میں کم و بیش دو دہائیوں تک کام لکھتے رہے ہیں۔ وہ اس دور میں نوائے وقت سے وابستہ رہے جب کہ نظریہ پاکستان اور پاکستان کی بنیادی اقدار پر ہر طرف سے یلغار ہو رہی تھی۔ محترم جناب مجید نظامی نے انھیں ان کی پاکستان دوستی، پاکستان اور اس کے نظریہ سے محبت کی وجہ سے اپنا پکا دوست اور رفیق کار بنایا۔ جناب مجید نظامی نے نوے کی دہائی میں ، جب کراچی میں بد امنی اور قتل و غارت عروج پر تھی، نصرت مرزا کو نوائے وقت میں لکھنے کی دعوت دی۔ اس دور میں پاکستان کے نظریہ اور اس کی اثاثی اقدار پر حملے ہو رہے تھے۔ مرزا صاحب نے بڑی استقامت کیساتھ ہمیشہ پاکستان اور اس کے نظریے کا دفاع کیا۔
مرزا صاحب نے اپنی کتاب میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے امن اور ترقی کیلئے استعمال کے پہلو کو اجاگر کیاہے ۔ انھوں نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے قیام کی تاریخ لکھی ہے اور اس کمیشن کے مقاصد اور اس کی قیادت کے بارے میں قارئین کو بڑی قیمتی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی توانائی اور مہارت سے صحت، صنعت اور زراعت کے شعبوں کی ترقی کیلئے ہر طرح کا کام لے رہا ہے۔ پاکستان اپنے ایٹمی بجلی گھروں سے کم و بیش تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ وہ نیوکلیئر پاور پلانٹ سے مزید بجلی پیدا کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
نصرت مرزا کی کتاب میں یہ بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے کینسر جیسے موذی مرض اور کئی دوسرے امراض کی تشخیص اور ان کے علاج کیلئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ادارے بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح زراعت کے شعبہ میں زراعت کی ترقی، فصلوں کی پیداوار میں اضافے اور ان کے تحفظ کیلئے بھی ایٹمی توانائی کا استعمال ہو رہا ہے۔ صنعت اور انجینئرنگ کے شعبہ میں بھی ایٹمی توانائی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ نصرت مرزا نے اپنی کتاب میں اس پراپیگنڈے کا بھی جواب دیا ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو صرف ہتھیاروں کے لئے ہی استعمال نہیںکر رہا، وہ اسے ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ یہ کتاب طلبہ اور تحقیق کاروں کیلئے ایک مستند حوالہ ہے ۔ کتاب میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی مکمل تاریخ موجود ہے اور وہ ادارے جو ایٹمی توانائی کمیشن کے ماتحت ملک میں صنعتی، زرعی اور انجینئرنگ کے شعبہ میں ترقی کیلئے کام کر رہے ہیں، ان کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ کتاب میں ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نعیم کی رائے بھی شامل کی ہوئی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024