شامت اعمال ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر کوئی نہ کوئی ایسی خبر دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ دل دہل جاتا ہے اور خدا کے حضور انسان یہ التجا کرتا ہے۔خدایا رحم کر اور ناگہانی عافت سے محفوظ کر۔۔ایک کرونا کی وبا انسانوں کے ذہنوں پر اتنی حاوی ہے کہ ہر شخص خوف زدہ ہے۔اوپر سے ریلوے کے بے درپے حادثات کی خبریں شیخوپورہ میں پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے مسافر وین ٹرین کی زد میں آگئی۔جس میں سکھ برادری کے نہ صرف مرد تھے بلکہ خواتین اور چھوٹے بچے بھی تھے۔اور متعددافراد جاں بحق ہو گئے۔
مسافر اپنی منزل کو پہنچنے کیلئے گھر سے نکلے ہونگے۔۔۔ انسان اپنی زندگی میں کتنے منصوبے بناتا ہے کیا خبر تھی کہ راستے میں ہی اچانک ان کی موت ہو جائے گی۔۔ابھی پی آئی اے کا حادثہ لوگوں کو بھولا نہیں تھا کہ ٹرین کے ساتھ وین کی ٹکرکا حادثہ ہو گیا اور اگلے روز مسافر ٹرین اور مال اڑی میں ٹکر ہو گئی۔ اس طرح کے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
حیرت ہے کہ وین چلانے والے ڈرائیور کو دور سے آتی ہوئی ٹرین بھی نظر نہ آئی۔وین اور بسوں کو چلانے والوں کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ انہیں مر جانے سے بھی ڈر نہیں لگتا۔چلو یہ تو غفلت وین ڈرائیور کی ہو سکتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے کندھوں پر بھاری ٹیکسزلادے جاتے ہیں۔۔وہ کسی نہ کسی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں۔۔اور وہ ٹیکس اس طرح کے کاموں میں خرچ ہونے چاہئیںاور شہر کی مین ٹینینس(Maintenance) میں خرچ ہونے چاہئیں اور اعلیٰ پائے کے نگران ہونے چاہئیں جو شہر کی مین ٹینینس(Maintenance) کی دیکھ بھال کریں اور دیکھیں کس چیز کی ضرورت ہے۔
ٹرین کے پھاٹکوں پر اور گٹر کے مین ہول پر کروڑوں روپیہ خرچ نہیں ہوتا۔۔لوگوں کی زندگیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں مگر ان زندگیوں کے بارے میں صاحب نگران بے حس ہوتے ہیں۔۔جب بھی کوئی فلاحی کام کیلئے کہا جائے تو یہی جواب ملتا ہے کہ بجٹ نہیں ہے۔۔تو سوال اٹھتا ہے کہ اگر بجٹ نہیں تو وہ ٹیکسز جو لوگ ادا کرتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں اور کن کاموں میں صرف ہوتے ہیں۔باہر کے ملکوں میں اکثر جانا ہوتا ہے وہاں لوگ بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان ملکوں کی گورنمنٹ اپنے ملک کو چار چاند لگاتی ہے۔ٹریفک میں اگر بھول چوک ہو جائے تو اسی وقت جرمانہ ہو جاتا ہے۔سڑک کہیں سے ٹوٹ پھوٹ جائے تو فوراََ مرمت کی جاتی ہے۔
ان ٹیکسوں کی وجہ سے لوگوں کی سہولت کیلئے اور انسانی زندگی کے بچائو کیلئے بہت سے کام کئے جاتے ہیں۔ہر علاقے میں غریب اور نادار لوگوں کیلئے مفت کھانا پینا اور رہائش گاہ کا بندوبست ہوتا ہے۔مگر اپنے ملک میں یہ سہولتیں نہیں تو کم ازکم۔ٹرین پھاٹک تو لگ جانے چاہئیں۔۔تاکہ لوگوں کی زندگیاں مولی گاجروں کی طرح نہ کٹ جائیں۔
اس طرح سڑکوں کے مین ہول کے ڈھکن راتوں رات چرا لئے جاتے ہیں اور کئی لوگ غفلت سے اندھیرا ہونے کی نسبت گر جاتے ہیں۔بعض بچے کھیلتے ہوئے ان گٹروں میں گر جاتے ہیں اور والدین بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنا برا حال کر لیتے ہیں۔
خدارا قائد اعظم نے بڑی محنت کے ساتھ اس ملک کو بنایا ہے۔اور جو بھی حکومت آتی ہے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایمانداری سے احسن طریقے سے اس ملک کو بنائے سنوارے تاکہ دوسرے ملکوں میں ہماری بھی پہچان ہو سکے۔میں صاحب اقتدار کو اور خصوصاََ عوام سے یہ کہوں گی ہر قدم پر نہ صرف اپنا بلکہ دیگر لوگوں کا خیال رکھیں ۔ پھاٹک کھلا دیکھ کر ڈرائیور کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ کہیں آگ بجھانے کیلئے وہ جارہے ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے ساتھ کئی جانوں کا بھی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ ان کو بھی یہ خیال ہونا چاہیے کہ ہم لوگوں کو سوچ سمجھ کر وین چلانی چائیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024