نواب عبد الصمد خان کے حکم پر صادق محمد خان نے فرید خان کی سرکوبی کی جس کے صِلہ میں مغل منصب دار نے اِسے شہر فرید کے علاقہ کی حکومت دے دی۔ اَب اسکے حوصلے بلند ہوئے۔ اس نے 1733 ء میں چولستان کے قلعہ دراوڑ پر حملہ کر کے راول اکھی سنگھ کو مار بھگایا قلعہ پر قبضہ کر کے ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ قلعہ دراوڑ عباسی حکمرانوں کا گڑھ بن گیا۔ اس طرح ایک اندرونی طور پر خود مختار ریاست کی بنیاد پڑی۔ نادر شاہ ایرنی جب حملہ آور ہوا تو صادق محمد خان نے ڈیرہ اسماعیل خان جا کر اس کے خیمہ میں حاضری دی اور اِس کی بالا دستی قبول کی۔ نادر شاہ نے صادق محمد خاں عباسی کو نواب کا خطاب دیا۔
جب نادر شاہ ہندوستان کے حملہ کے بعد واپس جانے لگا تو نواب صادق محمد خان کے لڑکے محمد بہاول خان کی خیمہ میں حاضری پر خوش ہوا۔ اِسے علاقہ چوہدری۔ آلہ آباد۔ شہر فرید۔ دراوڑ قلعہ کا انچارج قرار دیا۔ نواب صادق محمد خان کے کلہوڑوں کے ساتھ شکار پور میں جنگ کے دوران مارے جانے کے بعد نواب محمد بہاول خان عباسی ریاست بہاول پور کی 1748 ء میں دریائے ستلج کے بائیں طرف بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔اِس نے بہاول پور شہر کی بنیاد رکھی۔ اِسکے بعد متعدد قصبیاور شہر آباد کئے۔ محلات۔ دفاتر۔ سپاہیوں کے لئے بیرکیں تعمیر کی گئیں۔اِن میں قابل ذکر بہاولنگر۔ رحیم یار خان۔ صادق آباد۔ احمد پور شرقیہ۔ چنی گوٹھ وغیرہ ہیں۔دریائے ستلج سے نہریں نکالیں گئیں۔ غلہ وافر پیدا ہونے لگا۔ نواب بہاول خان عباسی نے 1749 ء میں گورنر ڈیرہ غازی خان جانثار خان کی بغاوت کے دوران مغل افواج کی امداد کے سلسلہ میں کامیابی کے بعد کوڑا مل صوبیدار ملتان سے علاقہ آدم واہن 4ہزار روپیسالانہ مستاجری پر لے لیا۔ اِس نے بہاول واہ نہر نکال کر علاقہ میں زراعت کو ترقی دی۔
نواب بہاول خان 1750ئمیں فوت ہوا۔ اس نے ریاست کو وسعت دی۔ اِسکی لمبائی شمال مشرق سے جنوب مغرب تک تقریباً 300 میل اور چوڑائی40 میل تھی۔ اس نے اپنی ریاست کی ایسی بنیاد رکھی کہ یہ حکومت 200 سال تک چل نکلی۔ اس نے اوراِس کے بعد عباسی حکمرانوں نے رعایا کی فلاح کے لئے بہت کام کئے۔ اِن حکمرانوں نے ڈیرہ غازیخان۔ ملتان کے حکمرانوں اور مغل منصب داروں سے عمدہ تعلقات استوار کئے۔ حتیٰ کہ افغانستان کے حکمرانوں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بھی کچھ نہ کچھ سالانہ رقوم دیکر اپنی ریاست کی حفاظت کی۔ زراعت پر خصوصی توجہ دی گئ۔ خوشحالی قدم چومنے لگی۔ ملتان کے جنوب میں (ملتان کی حدود میں) میلسی۔ دنیا پور۔ کروڑ اور لودھراں پر قبضہ کر لیا۔ حکمرانوں نے رعایا کی تعلیم۔ صحت پر خصوصی توجہ دی۔ سکول۔ کالج۔ ہسپتال۔ ڈسپنسریاں اور دیگر فلاحی ادارے قائم کئے۔ غریبوں یتیموں اور بیواؤں کو باقائدگی سے پنشن ملتی تھی۔ شہریوں کو ملازمتیں دیں۔ حکمرانوں کے عمدہ رویہ کی وجہ سے ملتان۔ سندھ سیلوگ آ کر ریاست بہاولپور میں آباد ہونے لگے۔ ریاست نے اس طرح بہت ترقی کی۔ پاکستان بننے کے بعد ریاست بہاولپور میں مخدوم حسن محمود کی سربراہی میں نواب صادق محمد خان کی لیڈرشپ میں 1947ء کے بعد بھی بڑے فلاحی کام ہوئے۔ اَب لوگ اپنے اچھے وقت کو یاد کرتے ہیں اور اپنی علیحدہ پہچان چاہتیہیں۔ اُن کا مطالبہ ہیکہ بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ کا درجہ دیا جائے۔ جبکہ ریاست بہاولپور۔ ملتان۔ڈیرہ جات کا کلچر اور تاریخی ورثہ ایک ہے۔بہتر یہی ہیکہ جنوبی پنجاب پر مشتمل ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ جس کا دار الخلافہ بہاول پور قرار پایا جائے۔ملتان اور بہاول پور کے درمیان 60 میل لمبی 6 لائین پر مشتمل موٹر وے بنا دی جائے۔ مزید ایک ایسی تیز رفتار ٹرین (بلٹ ٹرین) تعمیر کی جائے کہ نصف گھنٹہ میں نان سٹاپ یہ ٹرین ملتان سے بہاولپور اور اِسی طرح بہاولپور سے ملتان مسلسل چلے تو دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ کم ہو جانے سے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ بڑھ جائے گا۔ دیگر علیحدہ صوبہ کے لوازمات بھی مکمل کئے جائیں۔
یہ امر حقیقت ہے کہ اس علاقہ کی زراعت۔ صنعت و حرفت سے اتنی آمدنی ہوتی ہیکہ بہاولپور۔ ملتان کے ساتھ ساتھ علاقہ کے دیگر شہروں کے لوگ بھی خوشحال ہو جائیں گے۔ اگر اِس علاقہ کی آمدنی میں سے ایک قلیل حصہ بھی ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو علاقہ کے عوام چند سالوں میں خوشحال ہو جائیں گے۔ علاقہ جنوبی پنجاب پاکستان میں دیگر صوبوں سے سب سے زیادہ گندم اور کپاس پیدا کرتا ہے۔ دیہات کے لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔ لوگ صحت اور تعلیم کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اِن کو اِن کے اپنے علاقوں میں سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ضرورت صرف عوام کے ایماندار نمائندوں اور حکومت کے افسران کی ہے۔ آج جبکہ یہ دونوں مل کر لُوٹ رہے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ لوکل سطح پر نمائندگی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ علیحدہ صوبہ کے قیام کے بعد با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں نئے الیکشن کے ذریعہ لوکل لوگوں کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے۔
………………… (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024