یہ اس دَور کی بات ہے جب پاکستان فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی ہر سال بہت سی فلمیں پروڈیوس ہُوا کرتی تھیں، اردو کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں کی نمائش بڑے اہتمام سے ہُو ا کرتی تھی ۔ اُن دنوں ہمارے بنگالی بھائیوں نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں کے جال میں پھنس کر ’’بنگلہ دیش‘‘نہیںبنایا تھا۔ لاہور کے مشہور اور تاریخی علاقے لکشمی چوک کے قریب ڈیڑھ دو سو افراد ایک ریڑھی والے کے گرد جمع تھے، جو بار بار ’گول گپے والا آیا، گول گپے لایا‘‘گنگناتے ہوئے اپنے گاہکوں سے درخواست بھی کر رہا تھا کہ پیار ے سجنو! تھوڑا تھوڑا اِدھر اُدھر ہو جائو تاکہ میں اپنا کام بھی کر سکوں۔ دراصل وہ ریڑھی والا شخص ہمارے ملک کا نامور اور بے حد مقبول اداکار علائوالدین تھا۔ اُسے لوگوں نے کافی دیر بعد پہچانا۔ ابتداء میں تو کئی شوقین افراد گول گپے کا پیالہ لینے کے لئے روپیہ اور اٹھنی ہاتھ میں لے کر باری کا انتظار کرتے رہے۔ فلمی کردار کے گٹ اَپ میں بہت سے لوگ بالکل پہچان نہ پائے کہ وہ ریڑھی والا مشہور اداکار علائو الدین ہے۔ ہُوا یوں کہ ایک فلم میں علائو الدین کو گول گپے فروخت کرنے والے کا کردار دیا گیا تو اس نے فلم ڈائریکٹر سے ضد کر کے تھوڑی دیر کے لئے پبلک میں ریہرسل پر زور دیا ۔ اس دَور میں فنکار اپنے فن سے انصاف کیا کرتے تھے ۔ کردار پر محنت کر کے حق ادا کرتے ، چنانچہ فلمی شائقین ان کرداروں کو پسند کرتے تھے ۔ بعد میں اس فلمی سین کی سٹوڈیو میں جا کر باقاعدہ شوٹنگ کی گئی ۔ یہ واقعہ ایک خبر پڑھ کر یاد آیا ۔ (اس کی تفصیل ہمارے ایک بزرگ دوست نے ہمیں سنائی تھی)۔ بتایا گیا ہے کہ بھارت کے معروف اداکار جاوید حیدر کو سبزیوں اور پھلوں کا ٹھیلہ لگانا پڑا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بھارت میں بھی کاروبار حیات متاثر ہُوا ، فلمی سر گرمیاں بھی رُکی ہیں۔ کام نہ ملنے کی وجہ سے جاوید حیدر کو سڑک پر ٹھیلہ لگاکر سبزیاں اور پھل بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ دلچسپ لیکن افسوسناک صورت حال ہے ، گردشِ حالات انسان کوبہت سے ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ، جن کے کام کرنے کا عام حالات میں تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اداکار جاوید حیدر فلموں میں کئی ایسے کردار کر چکے ہیں۔ اس لئے حقیقی زندگی میں سبزیاں اور پھل فروخت کرتے ہوئے انہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی ہو گی۔ وہ سبزی اور پھل بیچتے ہوئے ایک گیت کے بول بھی گنگناہرہے تھے’’دنیا میں اگر جینا ہے تو کام کرو جی‘‘۔ اس سے ان کی زندہ دلی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ فلمی اداکاروں کو اہم شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اس واقعہ کی تفصیل میں لوگوں نے بہت دلچسپی لی ۔ ہمیں بزرگ دوستوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ایک دَور میں جب اخبار نویسیوں کو ملازمت سے نکالا گیا تو انہوں نے دفتر کے سامنے پکوڑے بیچے تھے جبکہ حال ہی میں احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں نے بھی پکوڑوں کا سٹال لگایا ہے۔ اداکاروں اور صحافیوں کا سبزی ، پھل اور پکوڑے بیچنے کا واقع صیحح معنوں میں اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔ گھر کی گزر اوقات اور دال روٹی کو یقینی بنانے کے لئے ریڑھی یا ٹھیلہ لگانے میں کوئی حرج نہیں، اس میں شرم یا عار محسوس نہیں کرنی چاہیئے۔ حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہونے والے سٹیج اور ٹیلیویژن کے نامور اداکار امان اللہ کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ گلی محلوں اور سڑکوں پر ریڑھی اور ٹھیلہ لگانے والوں کی نقل بڑی خوبی اور مہارت سے اتارا کرتے تھے۔ وہ ان دکانداروں او ر پھیری والوں کی ایسی ایسی حرکتوں اور گفتگو کی تفصیلات بیان کیا کرتے کہ لوگوں کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو جاتا نامور فلمی اداکار منور ظریف کے بعد امان اللہ کو اس حوالے سے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ تو سبزیوں ، پھل اور پکوڑوں کی فروخت کے حوالے سے فنکاروں اور صحافیوں کی شہرت کا ذکر ہے ۔ کچھ فنکار کھانے پینے کی اشیاء کو فروخت کرنے پر بھی مشہور ہوئے ان میں سٹیج کے مشہور اداکار طارق جاوید (مرحوم) کو اس لئے بھی شہرت حاصل رہی کہ انہوں نے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر اور لاہور کے لکشمی چوک میں بریانی اور مرغ پلائو کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی اس ڈش کو لذید اور مزیدار بنانے کے لئے سپیشل باورچیوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ یار دوست شوبز سے تعلق رکھنے والے بھی لذت کام و دہن کے لیئے ان ریسٹورنٹس میں تقریباً روزانہ ہی پہنچ جاتے تھے۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ سٹیج ڈراموں میں طارق جاوید اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے لطف اندوز کرتے ہیں تو اپنے ریسٹورنٹس میں مزیدار مرغ پلائو اور بریانی کھلاتے ہیں، لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔ ایک مشہور گلوکار وارث بیگ نے گلبرک میں ایک اچھا ریسٹورنٹ بنایا اور وہ خوب مقبول ہُوا تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024