ڈرائیور نے ہمیں لاہور ریلوے سٹیشن کے باہر اتارا، بیٹا احمد بھی ساتھ تھا، ہمارا بیگ بھی احمد نے پکڑا اور ہم چل پڑے، کیا شاندار منظر تھا، ہنستے مسکراتے لوگ، بہترین صفائی چاق و چوبند سٹاف، ٹرینوں کی آمدورفت کا کمپیوٹرائزڈ نظام، ٹکٹ لینے یا ریچارج کرنے کے لئے سلیقے سے لائنوں میں لگے مسافر یہ سب کچھ بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ برسوں بعد ہم نے بذریعہ ٹرین لاہور سے راولپنڈی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ احمد کا تو غالبا ٹرین کا یہ پہلا سفر تھا۔ ریلوے اسٹیشن کا شاندار نظام دیکھ کر کہنے لگا ڈیڈ یہ ریلوے سٹیشن تو بالکل ائیرپورٹ جیسا منظر پیش کر رہا ہے۔ باہر سے یہ حالات ہیں اندر جائیں گے تو یقینا اس سے بھی زیادہ صفائی اور سلیقہ نظر آئے گا۔ آپ تو کبھی ٹرین پر سفر ہی نہیں کرتے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے انگلینڈ کے کسی ریلوے اسٹیشن پر گھوم پھر رہے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے ہم اندر آ گئے راولپنڈی جانے والی ٹرین کی روانگی میں ابھی پینتیس منٹ باقی تھے۔ کیا شاندار منظر تھا۔ چمکتی دمکتی ٹرینیں آ جا رہی ہیں۔ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ٹرینوں کی آمدورفت کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ اسٹیشن کا سٹاف بہترین یونیفارم پہنے چاق و چوبند ہے اور خوش اخلاقی کے ساتھ اپنا کام کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ یہ منظر بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ بدلا بدلا پاکستان نظر آ رہا تھا۔ ہم دونوں بیٹھ کر سیاسی اور عالمی کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر بات چیت کرنے لگے اسی دوران ہماری ٹرین آ گئی۔ صفائی کا معیار بہت اعلی تھا، نہ دھکم پیل، نہ بدبو، نہ گندگی، نہ چیخ و پکار سب کچھ بہت سلیقے کے ساتھ ہوتا رہا۔ سفر شروع ہوا، احمد پوچھنے لگا کیا دادا ابو ٹرین پر سفر کیا کرتے تھے ان کے زمانے میں بھی ہماری ریلوے اتنی اچھی تھی۔ ہم نے احمد سے کہا کہ آپ کے دادا مرحوم بتایا کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے وقت تو ریلوے کا نظام بہت اچھا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ خرابیاں پیدا ہوتی گئیں اور ایک زمانے میں پاکستان ریلویز تباہ ہونے کے قریب تھی پھر عمران خان کی حکومت آئی۔ ملک میں تبدیلی کا سفر شروع ہوا، اداروں کی بحالی ہوئی، سرکاری اداروں میں کرپشن ختم ہوئی، اہل اور قابل افراد کو میرٹ پر عہدے دیے گئے پھر دیگر اداروں سمیت ریلوے کی بحالی کا سفر شروع ہوا۔ یوں برسوں کی محنت کے بعد پاکستان ریلویز اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی اور آج جو ریلویز آپ دیکھ رہے ہیں یہ عمران خان کی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
ہماری ٹرین مختلف علاقوں سے گذرتی ہوئی منزل مقصود کی جانب بڑھ رہی تھی۔ قدرتی حسن سے مالا مال علاقے، بہترین زرعی رقبہ اور شہری علاقوں کو ٹرین سے دیکھنا آنکھوں کو بھلا معلوم ہو رہا تھا کہ اچانک ایک آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی کوئی ہمیں بلا رہا تھا، ڈیڈ اٹھ جائیں عصر کی نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ دیکھا تو احمد پاس کھڑا ہے۔ ہم اٹھے اور احمد سے کہا "یار پنڈی تے پہنچ لین دیندا" وہ کہنے لگا کیا مطلب ہم نے قہقہ لگایا اور کہا نماز کے بعد بتاتا ہوں۔ نماز عصر سے واپس آئے تو احمد کو خواب سنایا اسی دوران ٹی وی آن کیا تو دیکھا کہ وزیر ریلوے شیخ رشید ٹرین حادثے کی تفصیلات سے آگاہ فرما رہے تھے۔ احمد ہنستے ہنستے کہنے لگا ڈیڈ نیند میں جس ٹرین پر آپ راولپنڈی جا رہے تھے وہ ترقی شیخ رشید کی وزارت میں ہوئی تھی۔ جوابی قہقہ سننے سے پہلے وہ کمرے سے باہر بھاگ گیا۔
قارئین کرام ہم ٹی وی دیکھنے لگے اور رحیم یار خان میں ہونیوالے ٹرین حادثے پر وزیر ریلوے شیخ رشید کے بیانات پڑھنے لگے۔ اس حادثے کے نقصانات کی تفصیل بھی نشر ہو رہی تھیں۔ مالی نقصان اپنی جگہ کیا اکیس قیمتی جانوں کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے، کوئی امداد، کوئی دلاسہ، کوئی حوصلہ، کوئی دلیل ان اکیس خاندانوں کا دکھ کم کر سکتی ہے، کیا ان اکیس خاندانوں کے نقصان کی ذمہ دار وزارت ریلوے نہیں ہے، کیا ان کی مجرم وزارت ریلوے ہے، کیا وزیر ریلوے سے پوچھا جائے گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟؟؟
یہ میرے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، یہ وزیر ریلوے کیا کرتے پھر رہے ہیں، شیخ رشید کے وزیر بننے سے اب تک لگ بھگ چھ درجن حادثے ہو چکے ہیں، ان حادثات کا ذمہ دار کون ہے، تشویشناک حد تک حادثوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یہ ظاہر کر رہی ہے کہ نظام میں کہیں نہ کہیں ایسی خرابی ضرور پیدا ہوئی ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ رشید کی ساری توجہ زبانی جمع خرچ پر ہے۔ وہ بغیر کسی حکمت عملی کے نئی ٹرینیں چلانے کے چکر میں سارے نظام کو داؤ پر لگا رہے ہیں، نئی ٹرینوں کی سرکس میں، اپنے نمبر بنانے کے چکر میں، سادہ لوح عوام کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں قیمتی زندگیوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ نئے ٹرینوں کے اعلان کی رفتار موجود ٹرینوں کی رفتار سے بھی کہیں تیز نظر آتی ہے۔ جتنے بروقت وزیر ریلوے کے بیانات ہوتے ہیں وقت کی اتنی پابندی ٹرینوں کی آمدورفت میں ہونی چاہیے، جتنی تیز رفتاری سے وزیر ریلوے بیانات دیتے ہیں اس تیز رفتاری سے ٹرین کو چلنا چاہیے، وہ ہوتا نہیں جو ان کا کام ہے اور جو وہ کر رہے ہیں اس میں صرف تباہی ہے۔
کیا وزیر ریلوے نہیں جاتے کہ ایک ٹرین کو دوبارہ چلنے کے لیے کم از کم دس سے بارہ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ کیا وزیر ریلوے نہیں جانتے کہ ہمارے نظام میں اتنی ٹرینیں چلانے کے لیے سٹاف موجود ہے نہ ٹریک اس قابل ہیں کہ ان پر اتنا وزن ڈالا جائے، نہ نظام میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اتنی ٹریفک کو برداشت کر سکے، نہ اتنی صلاحیت ہے کہ اتنی ٹرینیں سنبھال سکیں، نہ قابلیت ہے کہ اتنی ٹرینوں کی دیکھ بھال کر سکیں پھر کیا وجہ ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی دھڑا دھڑ ٹرینوں کے نمبر بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ جس تعداد میں ٹرینیں بڑھا رہے ہیں اسی تناسب سے حادثات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر ریلوے ہوش کے ناخن لیں اپنی بناوٹی پھرتی، چستی ثابت کرنے کے لیے ملک و قوم کا نقصان نہ کریں۔ اگر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے نظام کو بہتر بنائیں۔ دعووں کے بجائے دفتر کو وقت دیں نظام کو سمجھیں، حادثات کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں تاکہ مسائل حل کرنے میں آسانی ہو، انسانی جانوں پر سیاست نہ کریں، سیاست کے شوقین ہیں تو اسے لال حویلی تک محدود رکھیں۔ عوام کے جان و مال سے کھیلنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
پاکستان ریلویز کی موجودہ صورت حال تشویشناک ہے وزیراعظم عمران خان کو اسکا نوٹس لینا چاہیے۔ اتحادی کسی بھی حکومت کی ضرورت ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اتحادی نہ ملک سے بڑا ہو سکتا ہے نہ عوام سے مقدم، موجودہ صورت حال میں وزیر ریلوے کی کارکردگی اور ان کے سطحی فیصلوں کا جائزہ لینے، ان کی کارکردگی پر ایک آزاد اور خودمختار کمشن تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت عوام تک پہنچے اور ذمہ داروں کو کیفرِ کردار اور منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ مختلف ریلوے حادثات میں متاثر ہونے والے پاکستانیوں کی نظریں ایوان وزیراعظم کے عارضی مکین عمران خان پر ہیں دیکھتے ہیں کہ ایوان وزیراعظم وزیر ریلوے کی ناقص پالیسیوں پر کیا ردعمل دیتا ہے، کیا ایکشن لیتا ہے، کیا کارروائی کرتا ہے۔ یقینا ملک و قوم کا نقصان کرنے والوں اور معصوم پاکستانیوں کی جان سے کھیلنے والوں کی نئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ شیخ رشید ہوں یا کوئی اور!!!!!!!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024