جمعۃ المبارک‘ 8؍ ذیقعد 1440ھ‘ 12؍جولائی 2019ء
نیوزی لینڈ بدنیت بھارت کو روند کر فائنل میں پہنچ گیا
پاکستانیوں نے نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان ہونے والا سیمی فائنل اس طرح دیکھا گویا یہ پاکستان اور بھارت کا میچ ہو۔ مانچسٹر میں پاکستانی ٹیم کی شرٹس پہنے کئی نوجوان نیوزی لینڈ کا پرچم اٹھائے انہیں سپورٹ کر رہے تھے۔ بھارت کی شکست پر پاکستان بھر میں ہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی لوگوں نے یوں جشن منایا جیسے یہ ان کی اپنی جیت ہے۔ بھارت کی ہار حقیقت میں اس کی اس بدنیتی کی سزا ہے جو اس نے انگلینڈ سے جان بوجھ کر ہار کر پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کرنے کے لیے اپنائی تھی۔ پاک فوج کے ترجمان آصف غفور نے بھارت کی شکست پر بھارتی وزیروں کی طرح زنانہ باتیں نہیں کیں بلکہ مردانہ وار نیوزی لینڈ کو مبارک باد دی۔ ورنہ وہ بھی بھارت کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے جلی کٹی سنا سکتے تھے۔ سوشل میڈیا پر تو جذباتی شائقین نے جس طرح پیغامات کا طومار باندھا ہے۔ اس میں سے صرف ایک ہی لکھنے کی ہمت ہورہی ہے جو مقبول عام بھی ہے ’’ھن آرام ای‘‘ آفرین کشمیریوں پر ہے جنہوں نے بھارت میں بیٹھ کر بھارت کی شکست کا یوں جشن منایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ پوری وادی بھارتی فوج کے نرغے میں ہے مگر کشمیری جیوے جیوے پاکستان، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے بھارت کے ہارنے پر سڑکوں پر نکل آئے اور دل کھول کر آتش بازی کی اور ثابت کر دیا …؎
عشق د ے اپنے وکھرے موسم
گرم دسمبر ٹھنڈا جون
خدا کرے ان کا پاکستان سے عشق سلامت رہے۔
٭٭٭٭٭
جلسے جلوس روکنے کے لیے پنجاب میں علیحدہ فورس کے قیام کا فیصلہ
انگریزوں کے دور میں مختصر پولیس تھی جو پورے پنجاب کو کنٹرول کرتی تھی۔ ایک سپاہی کئی دیہات کے لئے کافی تصور ہوتا تھا۔ اس وقت امن و امان کی حالت بھی بہتر تھی۔ اب جدید دور آیا ہم آزاد ہیں پولیس فورس کی تعداد بھی کافی ہے۔ اس کے باوجود امن و امان کی حالت ابتر ہے۔ پولیس فورس، کوئیک ریسپانس فورس، ڈولفن فورس، اینٹی ٹیررسٹ فورس اینٹی نارکوٹکس فورس، لیڈیز فورس، ٹریفک پولیس نجانے اور بھی کون سی فورسز موجود ہیں مگر امن و امان کی حالت بدستور ابتر ہے۔ رشوت کا چلن عام ہے۔ اب یہ جلسے جلوسوں پر قابو پانے کے لیے حکومت کے دل میں ایک نئی فورس کے قیام کا خیال نجانے کہاں سے آ گیا۔ پہلے جس جس کام کے لیے پولیس بنائی گئی ان میں سے کوئی بھی کام ایسا نہیں جہاں سے ٹھنڈی ہوائیں عوام کو آتی ہوں۔ اب یہ نئی فورس بھی
’’چکر چلانے آئے ہیں چکر چلا کے جائیں گے‘‘
والی بات ہی نظر آتی ہے۔ تھوڑے دنوں بعد اس پر بھی طرح طرح باتیں ہوں گی۔ ڈولفن کی مثال ہمارے سامنے ہے اسے ڈولفن سے شارک بننے میں کتنا عرصہ لگا اسی طرح ٹریفک وارڈنز بھی اب جیل کے وارڈن بنے نظر آتے ہیں۔ عام پولیس کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ ان کے بارے میں کچھ کہہ کر …ع
’’پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدا کی‘‘
سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا د یں گے۔ پی ٹی آئی
جی ہاں کہنے کی حد تک تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سوچنے پر کوئی پابندی نہیں مگر یہ 66 اور 37 کے عددی تفاوت کو کس جادو سے بدلا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے ایک مرتبہ پھر چھانگا مانگا کے جنگل میں منگل کا سماں باندھا جائے یا مری کے نظاروں کا جادو جگایا جائے۔ اس طرح عددی تناسب تبدیل ہو سکتا ہے۔ ویسے حیرت ہے ہمارے ہاں کے انسانوں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار کو نجانے کیوں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے ’’انسانی منڈی‘‘ کیوں نہیں کہا جاتا۔ شاید شرم آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی خرید و فروخت کے مراکز پہلے ہی بدنام ہیں اس لیے ہمارے ارکان اسمبلی جو خرید و فروخت میں نام کماتے ہیں ان کو ہارس ٹریڈنگ زیادہ سوٹ کرتی ہے۔ اس طرح برا بھلا گھوڑوں کے حصے میں آتا ہے۔ اس وقت جوڑ توڑ عروج پر ہے اور سنجرانی جی کو لانے والے ہی ان کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ اس وقت سینٹ میں اپوزیشن کو عددی برتری حاصل ہے۔ دیکھتے ہیں حکومت اپنی کم تری کس طرح دور کرتی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ا گر سنجرانی صاحب خود یہ بھریا میلہ …؎
’’اک دن پڑے گا جانا کیا وقت کیا زمانہ‘‘
کہتے ہوئے چھوڑ دیں تو انہیں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭
افغانستان میں تاجر نے بچھوئوں کا فارم بنا لیا زہر بیچ کر لاکھوں کمانے لگا
افغانی ویسے ہیں تو کمال کے لوگ اسلحہ ہو ہیروئن ہو یا زہر تینوں کا کاروبار کر کے مال کمانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ویسے سود کے کاروبار میں بھی ان کا نام سب کی زبان پر ہے۔ جب ہندوستان میں بنکوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ یہ کابل والے خان ہندوستان کے آخری کناروں تک ہر سال اپنے ادھار کی رقم پر سود لینے کے لیے آتے تھے۔ ہندو بنیئے بھی اس کام کے لیے مشہور ہیں جو اپنے چنگل میں پھنسنے والوں سے چار گنا سود لے کر بھی اصل زر برقرار رکھنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ وبا آج بھی بھارت میں ہر سال ہزاروں مقروضوں کی جان لیتی ہے۔ پھر وقت بدلا تو روس اور امریکہ کی مہربانی سے افغانیوں نے اسلحہ اور منشیات کے کاروبار میں ہاتھ ڈالا تو اس کی سمگلنگ سے اربوں کمائے ، بے نام بے کار بدحال مہاجر اور افغان انتظامیہ اسی کی بدولت کروڑوں اربوں میں کھیلنے لگے۔ اب ہرات میں جس افغانی تاجر نے بچھوئوں کا فارم کھولا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ کم از کم وہ یہ زہر قانونی طریقے سے انسانوں کی بھلائی کے لیے فروخت کر رہا ہے۔ اس فارم میں ہزاروں بچھو پالے گئے ہیں جن سے زہر حاصل کر کے یہ عقل مند شخص لاکھوں روپے کما رہا ہے ۔ بچھوئوں کا زہر میڈیکل ادارے اور میڈیسن کمپنیاں ہاتھوں ہاتھ خریدتی ہیں۔ اس سے دوائیاں تیار کرتی ہیں۔ اس طرح یہ منافع بخش کاروبار پاکستانیوں کو بھی اس افغانی تاجر کو دیکھ کر شروع کرنا چاہئے جو لوگ ان سے اسلحہ و منشیات جیسا غیر قانونی کاروبار سیکھ سکتے ہیں وہ ایک اچھا کام بھی سیکھ لیں تو کیا ہرج ہے۔