جن عالی مرتبت ہستیوں کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وزوجیت کا شرف حاصل ہوا اوروہ ام المومنین کہلائیں، ان میں حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے ، حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباع بن عبداللہ بن قرط بن زراع بن کعب بن لوی، آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی زینب بنت مظعون ہے جو خود بھی بہت عظیم المرتبت صحابیہ ہیں،نامور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، آپ کی والدہ کے حقیقی بھائی ہیں ۔وہ اپنے زہدء ورع اورتقویٰ پارسائی کے حوالے سے ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں اور پہلے صحابی ہیں جو جنت البقیع میں مدفون ہوئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے فراق میں بہت آزردہ رہے ۔
آپ کا تولّد بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوا، سن شباب میں پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے حوالے سے آپ بھی اسلام کے نورء تجلی سے بہرہ ور ہوگئیں۔
آپ کا پہلا نکاح حضرت خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، حضرت خنیس رضی اللہ عنہ اسلام کی خاطر شدت وصعوبت برداشت کرنے والے ، صاحبانِ عزم واستقامت میں سے ایک ہیں، انھیں ہجرت حبشہ کی سعادت حاصل ہوئی اوروہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کرام کی طرح ہجرت مدینہ سے بھی شرف یاب ہوئے ، عزوہ بدر میں معرکہ آزما ہوئے اوربڑھ چڑھ کر راہ شجاعت دی،بے خوف وخطر دشمنوںپر حملہ آور ہوتے رہے ، ان کے بدن پر بہت سے زخم آگئے ، غز وہ بدر سے واپس تو لوٹے ،لیکن انھیں زخموں کی وجہ سے شہادت سے سرخرو ہوگئے ۔
ان کے وصال کے بعد جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی عدت گزرگئی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کی فکر وامن گیر ہوئی ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی غزوہ بدر کے ایام میں دنیا سے رحلت فرماگئیں تھیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ حضرت حفصہ سے نکاح کرلیں انھوںنے جواب دینے میں تامل کیا اورغوروفکر کا وعدہ کیا، پھر کچھ دنوں کے بعد معذرت کرلی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہی تجویز پیش کی، لیکن انھوںنے سکوت اختیار کیا، حضرت عمر نے رنجیدہ خاطر ہوکر اپنے دوستوں کا معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا توآپ نے فرمایا: حفصہ کا نکاح اس شخص سے ہوگا جو عثمان سے بہتر ہے اورعثمان کا نکاح اس ہستی سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے ۔یوں اللہ کے حکم سے آپ مومنوں کی ماں بن گئیں ، حضرت صدیق اکبر نے کچھ عرصہ بعد اپنے سکوت کی بھی وضاحت کردی کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیصلے سے مطلع تھا لیکن میںنے آپ کا راز افشاء کرنا مناسب نہ سمجھا ۔(بخاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024