’’بلوچستان میں سمگلنگ منظم کاروبار ہے جسے قاتلوں کے سفاک گروہ چلاتے ہیں اور اپنے راستے آنی والی ہر رکاوٹ کو روند ڈالتے ہیں۔ انسانی جان کی تو کوئی اوقات بساط نہیں ‘‘ کوئٹہ میں مقیم آباد کار ممتاز سیاسی رہنما تہران میں سر راہ مل گئے تو گوادر سے شروع ہونے والی گفتگو ‘شاہنامہ بلوچستان’ بن گئی وہ بتا رہے تھے کہ 7 سرحدی اضلاع کا تمام تر انحصار آج بھی ایران پر ہے سبزیاں اور پینے کا پانی بھی وہاں سے آتا ہے اور ہمارے سرحدی محافظین کا یہ عالم ہے آٹے کا تھیلا لانے والے موٹر سائیکل سوار کو گولی مار دیتے ہیں جبکہ ایرانی پٹرول اسلام آباد کے کھنّہ پل پر سرعام بک رہا ہے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں سچی بات یہ ہے کہ اس کالم نگار نے ان کی انکشافات سے بھرپور باتیں سنی ان سنی کردیں اب جب واپس پہنچا تو ریاست کی عمل داری بحال کرنے کے ‘‘جرم‘‘ میں ڈاکٹر عبدالقدوس شیخ پاکستان پر اپنی جان نچھاور کر گیا اس جواں سال افسر کے سنگدل قتل نے دہلا کر رکھ دیا اور تہران میں ہونے والی گفتگو جزئیات سمیت یاد آگئی۔
یہ مظلومانہ شہادت معاشرے کی بدحالی، ریاستی نظام کے کھوکھلے پن اور ظلم کے راج کا زندہ ثبوت ہے۔ سمگلروں نے اس بہادر، جرأتمند اور ایماندار بیٹے کو سربازار گولی مار کر شہیدہی نہیں کیا، بڑے اطمینان سے بندوقوں کے بٹ مار مار اس کی پسلیاں توڑیں ، پاکستان کے ریاستی نظام کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے، یہ محنتی اور دیانتدار افسر کی موت نہیں، ضمیر، انصاف اور حب الوطنی کا زخموں سے چور چور لاشہ ہے۔ عبدالقدوس شہید ہوتے رہے تو نہ ٹیکس ریونیو جمع ہوگا، نہ سمگلنگ اور چور بازاری ختم ہوگی اور نہ ہی ریاست مدینہ کا خواب سچ ثابت ہوگا۔
وفاقی کابینہ نے شہید قدوس کے لئے فاتحہ خوانی کی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا اور تمام اعلیٰ ریاستی تحقیقاتی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل JIT بنانے کا فیصلہ بھی کیاگیاہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سمگلروں کے گرفتار سرغنہ نے تھانیدار کے دفتر میں باقاعدہ دربار لگانا شروع کردیا ہے۔ تھانے کے باہر ملاقاتیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، وہاں وفاقی کابینہ کی فاتحہ خوانی اور JIT کے اختیارات اور نیک نام پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ کی دیانتداری کیا کمال دکھا لے گی۔
بدھ کی شام کی نیشنل پریس کلب کے پرعزم سکریٹری جنرل انور رضا کے ہمراہ ایک سینئر انتظامی افسر سے ملنے گیا تو ڈاکٹر عبدالقدوس شیخ کی شہادت پر افسردہ تھے۔ کہنے لگے شہید بہت شائستہ کلام اور نرم مزاج افسر تھے ،انہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن فرائض نہایت دیانتداری سے انجام دیتے تھے، دو بچے اور بیوہ کا کون والی وارث ہو گا۔ محدود حافظے والی پاکستانی قوم چند دنوں میں سب کچھ بھول بھال جائے گی۔ ویسے یہ ’ٹیسٹ کیس‘ ہے کہ عام سمگلروں نے اس جواں سال اور دلیر افسر کو چوک چوراہے میں گاڑی سے اتار کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ موجود سب انسپکٹر کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ شہید عبدالقدوس کے سراور جسم کے مختلف حصوں پر بندوقوں کے دستے مار مار کر جس سے جواں سال قدوس شہید کے پھیپھڑے پھٹ گئے تھے، سینے کی ہڈیاں اور پسلیاں چکنا چور ہو گئی تھیں،کوئٹہ کے تھانہ کیچی بیگ کے ایس ایچ او عبدالحئی کے مطابق کوئٹہ میں تعینات پاکستان کسٹمز کے ڈپٹی کلکٹر ڈاکٹر عبدالقدوس شیخ کو چار جولائی کی رات ایک بجے کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر گاہی خان چوک کے قریب ’’نامعلوم‘‘ افراد ‘ (جن کے نام سب کو معلوم ہیں )نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ کوئٹہ کے قریب ضلع کچھی کے علاقے کولپور میں غیر قانونی تعمیراتی سامان اندرون ملک سمگل کرنے والے کنٹینروں کے خلاف کارروائی کر کے واپس کوئٹہ آرہے تھے۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ ’’دو گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے رات ایک بجے تعاقب کے بعد ڈاکٹر عبدالقدوس شیخ کی گاڑی کو اسلحہ کے زور پر روکا اور انہیں گاڑی سے اتار کر کلاشنکوف کے بٹ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کے ہمراہ کسٹمز انسپکٹر غلام حسین بھی تھے، سمگلروں نے مقامی کسٹمز انسپکٹر کو کچھ نہ کہا، شہید قدوس کا انگ انگ کچل کر رکھ دیا۔
ارض وطن کا یہ شیر جوان عبدالقدوس دو ماہ قبل ہی کوئٹہ میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر تعینات ہواتھا۔پاکستان کسٹمز کے ترجمان ڈاکٹر عطا بڑیچ کے مطابق ’عبدالقدوس شیخ کو سر، سینے اور پیٹ میں شدید زخم آئے تھے، ان کا دماغ اور پھیپھڑے متاثر ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئے ، انہیں پہلے سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما ایمرجنسی سینٹر اور پھر ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ صحت میں کوئی بہتری نہ آنے پر انہیں مزید علاج کے لیے کراچی کے نجی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ رات گئے دم توڑ گئے۔‘‘
سندھ کے علاقے خیر پور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالقدوس شیخ چانڈکا میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل افسروں کے 38 ویں کامن سے تھے دو ماہ قبل کوئٹہ میں تعیناتی کے بعد ڈاکٹر عبدالقدوس نے کوئٹہ، خضدار، کولپور اور ڈیرہ مراد جمالی میں فرائض انجام دیتے ہوئے سمگلنگ کی روک تھام کے لیے مؤثر کارروائیاں کیں جس کے وجہ سے انہیں سمگلروں کی جانب سے دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق عبدالقدوس شیخ نے آخری کارروائی کولپور میں کی تھی جہاں انہوں نے کوئٹہ سے ’ٹائلز‘ لاہور لے کر جانے والی ایک گاڑی کو ’جنرل ڈکلیریشن سرٹیفکیٹ‘ نہ ہونے پر روکا تھا۔ یہ گاڑی بدنام زمانہ سمگلر صادق ادوزئی کی تھی۔کہتے ہیں ’’ہمارا شبہ ہے کہ کسٹمز افسر پر تشدد اسی اسمگلر کی ایماء پر ہوا ہے۔ ہم نے صادق ادوزئی، اس کے بھائی طوفان اور ایک ملازم احمد شاہ کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاون سے گرفتار کرلیا ہے۔ تینوں ملزمان کا ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے انہیں عدالت میں پیش کیا جارہا ہے جس کے بعد ان سے مزید تفتیش کی جائے گی۔‘‘ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ منگل کی صبح کولپور کسٹم چیک پوسٹ پر تعینات کسٹم اہلکار لیاقت علی کو مردہ حالت میں سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا۔ دعویٰ ہے کہ اس نے سر میں گولی مار کر خودکشی کی ہے تاہم کسٹم اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ موت کی حتمی وجہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس بات کو بھی تفتیش میں سامنے رکھا جائے گا کہ ان کی موت کا ڈپٹی کلکٹر کے کیس سے کوئی تعلق نہیں۔آئی جی پولیس بلوچستان کی تجویز پر محکمہ داخلہ بلوچستان نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں آٹھ رکنی ٹیم تشکیل دی ہے جس میں محکمہ انسداد دہشت گردی، کرائم برانچ، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور محکمہ کسٹم کے نمائندے شامل ہوں گے۔
بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے لگتی ہیں۔ یہ کھلی حقیقت کہ ہمسایہ ممالک سے بڑے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیا سے لے کر تعمیراتی سامان تک سینکڑوں اشیاء غیر قانونی طور پر سمگل کی جاتی ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدوس کی بچی کا سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔ اگر اس کے والد کو انصاف نہ ملا تو وہ بڑی ہوکر اس نظام، ریاستی مشینری اور اس کے تام جھام کے بارے میں کیا سوچے گی؟ کیا ہم سب اس ننھی پری کی عدالت میں مجرم نہیں ٹھہرائے جائیں گے؟
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ موصوف سمگلر اتنا بااثر ہے کہ تھانے میں اس کی آوبھگت ہورہی، بارگاہی سلامیاں پیش ہورہی ہیں، پھر انصاف کیسے ہوگا؟ کس میں یہ جرات ہوگی؟ کس کا ضمیر اتنا بیدار اور جراتمند رہے گا؟ ۔وزیر اعلی بلوچستان سمیت دیگر افراد نے شہیدعبدالقدوس کے لئے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور اس کی مغفرت کی دعا کی ہے۔ ایک نیک، محنتی اور ایماندار شخص کی مغفرت تو ہوچکی، وہ تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔ مغفرت کی ضرورت تو زندوں کو ہے جو اقتدار کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور ان کے ہوتے سمگلر تھانوں میں حکم چلاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسے جوان اور جرأتمند افسر وطن پر قربان ہونے کی لازوال داستانیں رقم کرچکے ہیں لیکن ان کے قاتلوں کی گرفتاری شاید کسی کو یاد نہیں۔ جس طرح اس نوجوان افسر پر وتشدد ہوا تھا، اس پر فوری اسے علاج کی سہولت بہم پہنچانا کس کی ذمہ داری تھی؟ جس رفتار سے ریاست نے اس معاملے پر ردعمل دیا اور دیاجارہا ہے، اس پر افسوس اور رنج کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہ رویہ کیوں ہے کہ جب میڈیا میں مسئلہ اچھلتا ہے تو سب کی آنکھ کھلتی ہے؟ اگر یہ معاملہ نمایاں نہ ہوتا تو کون ایسے شیروں کا والی وارث ہوتا؟
کسے نہیں معلوم کہ افغانستان اور ایران سے سملگلنگ ہورہی ہے اور کیسے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جارہے ہیں؟ سات ہزار آٹھ سو اٹھاسی کلومیٹر خشکی اور ایک ہزار چھیالیس کلومیٹر ساحلی پٹی پر سمگلنگ کا دھواں پھیلا ہے۔ ’دھواں‘ کے عنوان سے ٹی وی ڈرامہ اسی حقیقت کو اجاگر کرچکا ہے۔ اس میں مرکزی کردارادا کرنے والا عاشر کینڈا میں ٹرک چلارہا ہے اور اس نظام کی بے ایمانی اور سفاکی کا چلتا پھرتا ثبوت ہے۔ایک طرف آپ کو اپنی معیشت ٹھیک کرنی ہے لیکن دوسری جانب ڈاکٹر عبدالقدوس کو بیچ چوراہے نشانہ بنایاجاتا ہے۔ تھانوں پر سمگلروں کا قبضہ ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024