عام غریب آدمی کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان ان کی زندگی کی امیدیں ختم کرتا چلا جارہا ہے۔ ہر مہینے منی بجٹ آتا ہے اور تمام عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے کے تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے دعوے ہی عوام کی بداعتمادی کا سبب ہیں کیونکہ انہوں نے قوم کو بہت ہی زیادہ سبز باغ دکھائے تھے جس سے مثبت تبدیلی کی خاطر قوم نے انہیں آزمانے کا فیصلہ کیا یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن ان کے مینڈیٹ کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ وزیراعظم کے اقتدارمیں آنے سے پہلے چند اقوال یہ تھے۔ ’’جب ڈالر اوپر جائے اور مہنگائی میں اضافہ ہو تو سمجھو‘ تمہارے حکمران چور ہیں‘‘۔ ’’آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا‘‘۔ ’’ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اپنا چوری کا مال صاف کرنے کے لئے لائی جاتی ہے‘‘۔ ’’دوسرے ملکوں میں ٹرین حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے استعفٰی دیتا ہے‘‘۔ مراد سعید کا خطاب ’’باہر رکھے 200ارب ڈالر واپس لائیں گے‘‘ اسی طرح اسدعمر کے خطابات کے برعکس اقدامات۔ ایسے درجنوں خطابات ہیں جس پر مکمل یوٹرن لینے اور مہنگائی میں مسلسل بے تحاشہ اضافے پر عوام پریشان ہیں اور ایک ایک خطاب پر جواب چاہتے ہیں لیکن حکمران اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے میڈیا پر صرف دن رات اپوزیشن کو چور قرار دیتے نہیں تھکتے۔
حکمران صرف یہی کہتے ہیں کہ اس سب کے ذمہ دار گزشتہ ن لیگ کے لوگ ہیں جو مئی 2018ء میں خزانہ خالی چھوڑ کر اور ملک کو قرضوں میں ڈبوکر چلے گئے لیکن عام آدمی کے سامنے ہے کہ موجودہ حکومت کو سعودی عرب نے 6ارب ڈالر‘ چین نے 3ارب ڈالر‘ یو اے ای نے 3ارب ڈالر اور قطر نے 4ارب ڈالرز دیئے ہیں اور عوام بارہا سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس قدر خطیر رقم کہاں چلی گئی؟ حکمرانوں سے اس رقم کے متعلق پوچھیں تو جواب ملتا ہے ن لیگ اور پیپلزپارٹی ملک ڈبوکر چلے گئے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ موجودہ حکومت میں آنے والے یہ ڈالرز کہاں گئے؟ مئی 2018ء میں ڈالر 98روپے جبکہ اب 157-162روپے ہے۔ سونا اس وقت56900روپے تولہ جبکہ اب 80500روپے‘ پیٹرول 87.70روپے اور اب 114روپے لیٹر‘ چینی 55-60روپے اور اب 74روپے کلو‘ کوکنگ آئل 140روپے اور اب187روپے لیٹر جبکہ گھریلو گیس سلنڈر1352روپے کا تھا اور اب1400 اسی طرح گیس‘ بجلی‘ سی این جی سمیت روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کم از کم نصف سے 200فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور اس سب مہنگائی کا حکمراں جماعت سے کوئی سوال نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان کا واحد جواب ہے کہ یہ سب کچھ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی وجہ سے ہوا ہے۔ بھئی اب ماشاء اﷲ سے آپ کی حکومت کو ایک سال پورا ہونے کو ہے اور آپ اب بھی گزشتہ حکومت پر ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ حکومت جب سے آئی ہے 10سنگین ٹرین حادثات ہوچکے ہیں لیکن وزیر ریلوے شیخ رشید استعفیٰ دینے جیسے اخلاقی اقدام کے بجائے اسے انسانی غلطی قرار دیکر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔گزشتہ روز صادق آباد میں اکبر ایکسپریس کا مال گاڑی سے تصادم ہوا ہے جس میں درجن بھر معصوم شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔اسی طرح مراد سعید کی کوششوں سے بیرون ملک چھپائے گئے 200ارب ڈالرز کی واپسی کا سوال تو زبان زدعام ہے لیکن عوام کو کوئی مطمئن کرنے والا نہیں اور حکمراں جماعت کے ہر ہر لیڈر کا یہی بیانیہ ہے کہ موجودہ سب کچھ گزشتہ حکمرانوں کی وجہ سے ہوا ہے لیکن عوام کو گھبرانا نہیں چاہئے۔ اس مہنگائی کے طوفان میں گھبرانے تک کا حق نہیں دیا جارہا اور صرف زبانی جمع خرچ سے وقت گزارا جارہا ہے۔
ن لیگ کے آخری بجٹ میں جو ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا تھا موجودہ حکومت اسے پورا کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی کیونکہ یہ ٹی وی پر آکر تاجروں‘ کاروباری افراد اور صنعت کاروں کو دھمکیاں دیتے ہیں لیکن عملی طور پر ان دھمکیوں سے ٹیکس وصولی کے بجائے الٹا اثر ہوتا ہے اور خوف کی فضاء میں کاروبار تقریباً ختم ہوچکا ہے اسی لئے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ صنعتکاروں کو بہت زیادہ سہولتیں دیکر ایکسپورٹ بڑھانے کے دعوے مسلسل کئے جارہے ہیں لیکن بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور صنعت کار اب تک ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں اسی لئے تو آئے روز بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کرکے منتیں ترلے کئے جاتے ہیں لیکن صنعت کاروں کا مطالبہ ہے کہ آپ اضافی نہیں تو گزشتہ حکومت کے برابر ہی مراعات دے دیں لیکن حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ اگر گزشتہ حکومت میں خام مال 100روپے کا تھا تو اب 500روپے کا ہوگیا ہے اور صنعت کار چاہتا ہے کہ اگر میں خام مال پر اب 500روپے خرچ کروں تو اسی شرح سے منافع ملنا چاہئے لیکن حکمران یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔
حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ ایف بی آر کراچی‘ لاہور‘ پشاور سمیت بڑے بڑے شہروں میں ڈور ٹو ڈور جاکر ٹیکس وصولی کو ممکن بنائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ہر شخص مناسب ٹیکس نہیں دے گا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن ٹی وی پر صبح شام ایف بی آر اور ٹیکس محکمے کو جس طرح سے پیش کیا جارہا ہے اس سے تو کبھی بھی ٹیکس ادائیگی میں اضافہ ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ عوام کے ذہنوں میں نقش کردیا گیا ہے کہ ٹیکس محکمہ بڑا ظالم و جابر ہے اور اس قدر سخت اقدامات کرتا ہے کہ آپ کی جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ کیا ہی بہتر ہوتا ہے اس طرح کا نقشہ پیش کرنے کے بجائے آپ ٹیکس دہندگان کو ملنے والی مراعات کا تذکرہ کرکے لوگوں کو اس طرف مائل کرتے اور ہندوستان کی طرح کا ٹیکس نظام رائج کیا جائے۔
ہندوستان میں کیسا ٹیکس نظام ہے؟ بھارت میں ہر کمرشل بینک میں ٹیکس ادائیگی کے تمام چالان رکھے ہوتے ہیں اور ہر عام آدمی رائج ٹیکس کا اسی شرح سے چالان بھر کر ہر کمرشل بینک میں جمع کرادیتا ہے اور اسے کسی ٹیکس افسر یا وکیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر عام آدمی کو جب اجرت دی جاتی ہے کہ اسی شرح سے ٹیکس کا چالان بھر کر اسی وقت بینک میں جمع کرادیا جاتا ہے ۔ کاش کہ ایسا ہی پاکستان میں بھی ہوجائے کہ تمام کمرشل بینکوں میں ہر طرح کے ٹیکسوں کے چالان رکھے ہوں اور عوام خود جاکر رائج ٹیکس آسان ترین طریقے سے جمع کراسکے۔ بدقسمتی سے یہاں تو ایسا نظام رائج ہے جس میں 100روپیہ قومی خزانے میں اور 1000روپیہ ٹیکس محکمے کے افسر کے جیب میں جاتا ہے۔
میں نے کراچی میں عام دکانداروں سے پوچھا ہے تو ہر شخص ٹیکس دینے کو تیار ہے لیکن عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ آپ بے شک ڈور ٹو ڈور آئیں‘ ہمارے کاروبار کا حجم دیکھیں اور مختلف کٹیگریز بناکر سالانہ ہر دکان‘ ہوٹل‘ مستری‘ کاریگر‘ شوروم‘ ڈیلرز یعنی ہر ہر کاروبار پر سالانہ فکس ٹیکس رائج کریں اور ٹیکس محکمے کے افراد ہر ہر دکان‘ ہوٹل وغیرہ پر سال میں ایک بار جاکر ان کو چالان دیں جو وہ بخوشی جمع کرانے کو تیار ہیں لیکن روز روز کسی ٹیکس محکمے کے اہلکار یا افسر کا ان کے دروازے پر آنے کا خوف ختم کرنا ضروری ہے اور وزیراعظم صاحب خود اس طرح کی کٹیگریز بناکر ایسے ہی نظام کو رائج کریں تو میرے خیال میں ہر چھوٹا بڑا کاروباری فرد مناسب سالانہ فکس دینے بخوشی دینے کو تیار ہے لیکن خوف کی فضاء کا خاتمہ تو حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38