حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا
موت ایک اٹل حقیقت ہے ہر کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ جانے کا وقت کسی کو پتہ نہیں‘ آنے کا وقت پتہ ہوتا ہے۔ جانے والے کو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ کبھی کوئی رکا ہے۔ 15 مئی کو جب نوید لودھی ہم تمام دوستوں کی موجودگی میں کارڈیالوجی ہسپتال میں اللہ کو پیارا ہوا تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہسپتال کی انتظامیہ اور وہاں موجود مریض پریشان تھے کہ کون اللہ کو پیارا ہو گیا ہے کہ سینکڑوں لوگ رو رہے تھے۔میرے اندر کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ وہ کینٹ کے جرگے کی جان تھا۔ اس کے قریبی ساتھی ندیم‘ شیخ افضل‘ آصف اعوان‘ نواب ندیم الدین‘ عامر‘ نعیم‘ سعید مونی‘ رانا نثار‘ غفار اعوان‘ شیخ اطہر ممتاز‘ ملک آفتاب ایزد اور ملک عامر ڈوگر بہت غمزدہ تھے۔
کسی نے کہا اب ہمیں کون سنائے گا
کسی نے کہا طنزو مزاح کا چراغ گل ہو گیا
وہ معاشرے کا مسیحا بھی تھا‘ اسکا ہاتھ لوگوں کی نبض پر ہوتا تھا۔ اسکا والد فوت ہو چکا تھا۔ اپنی ماں سے بہت پیار کرتا تھا‘ چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ بوڑھی ماں نے بیٹے کی میت دیکھ کر کہا مجھے بڑا دکھ دیکر جا رہا ہے۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھا۔ اللہ تعالیٰ اسکے درجات بلند فرمائے۔
غریب لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتا تھا۔۔ جب بھی آئی بی کے ڈائریکٹر جو سب کے دوست ہیں انکے لئے کھانا بنا کر لاتا تو کہتا ’’میری ماں کا حکم ہے (شیخ افضل) افسروں کی عزت کیا کرو۔ یہ عزت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ مرحوم 48 سال کی عمر میں دوستوں کا کثیر سرمایہ چھوڑ گیا۔ نہ وہ ممبر قومی اسمبلی تھا‘ نہ سینیٹ کا ممبر لیکن! خدا ترس تھا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
کچھ لوگ اداس اور بے رونق چہروں پر مسکراہٹ کی چاندنی بکھیر کر خود چلے جاتے ہیں۔ کینٹ کے جرگہ میں روزانہ اسے یاد کیا جاتا ہے۔ میں نوید لودھی کے اس قدر قریب رہنے کی وجہ سے ان کی شخصیت کو گہرائی تک جانتا تھا۔اس نے خدمت انسانیت بھی کی‘ جن کے صدقے میرے مالک نے یقیناً اس کے حق میں جنت الفردوس ہی تجویز کی ہو گی۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت مبں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
میں یہ الفاظ کبھی نہیں بھولوں گا۔ جب ایک دن اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا تم توسب کو ہنساتے ہو‘ لوگ تمہارا انتظار کرتے ہیں۔ آج تم کیوں روئے تو اس نے کہا کہ میں والد صاحب (مرحوم) کی قبر پر گیا تھا آج اداس بھی تھا۔ والد کی قبر کے سرہانے‘ ہاتھ باندھ کر روتا رہا کہ میں گھر میں بڑا بیٹا تھا۔ باقی بھائی چھوٹے تھے۔ ابوجی! میں نے آپ کو پیار پیار میں اگر تنگ کیا تو معاف کر دینا۔ زبان و بیان کے لحاظ سے اسکے بھائی اسکی تعریف کرتے ہیں۔ نعیم لودھی اسکا بہت خیال کرتا تھا۔ لالہ بھائی ہر جمعرات اس کو کسی نہ کسی ہوٹل میں کھانا کھلاتا تھا۔ ملک خانی بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ شیخ طارق تو روزانہ کہتا ہے محفل اجڑ گئی۔ وہ اپنے پیچھے نقوش چھوڑ گیا جو چند دوستوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی وفات سے بہت لوگ اداس ہیں۔ بورے والا کا ذکر بہت کرتا تھا تو میں اسے کہتا ہم ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں تم تحصیل بورے والا کو کیوں اتنا چڑھاتے ہو۔
زندہ رہنا ہے تو یہ ذہن میں رکھنا لوگو!!
موت کے خوف سے بے موت نہ مرتے رہنا