بیرون ملک اکاآؤنٹس ظاہر نہ کرنیوالوں کا پت چلنا چاہئے:چیف جسٹس
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ایجنسیاں) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پیسے کی بیرون ملک منتقلی روکنا اصل مقصد ہے کیونکہ پیسہ لوٹ کر لوگ باہر چلے گئے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کو رپورٹ فائل کرنے کے لیے وقت مانگ لیا۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے غیر ملکی اکائونٹس اثاثہ کیس کی سماعت کی۔ (ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے حکم دیا تھا بتائیں کتنے لوگوں کے غیر ملکی اکائونٹس ہیں؟ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کو رپورٹ فائل کرنے کے لیے وقت دے دیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پیسہ لوٹ کر لوگ باہر چلے گئے، جن لوگوں نے بیرون ملک اکائونٹس ظاہر نہیں کیے ان کا پتہ چلنا چاہئے۔ پاکستانیوں کے اربوں روپے سوئٹزرلینڈ اور دبئی میں پڑے ہیں۔ ایف آئی اے بتائے متحدہ عرب امارات میں کتنے پاکستانیوں کے اثاثے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں 4221 لوگوں کے اثاثے اور اکائونٹس ہیں۔ 1992 کے قانون کے تحت وہ پیسہ بیرون ملک لے کر گئے۔ بشیر میمن نے بتایا کہ کچھ لوگ قانونی طریقے سے پیسہ باہر لے کر گئے، ایسے لوگ بھی ہیں جو کرپشن اور ٹیکس چوری کا پیسہ باہر لے کر گئے۔ یہ پیسہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا لے جایا گیا۔ اسے واپس لانے کے لیے کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ ہمارے پاس میوچل لیگل معاونت کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وائٹ کالر کرائم ختم کرنے کیلئے کچھ ہونا چاہیے۔ قانونی رکاوٹ کو دور کرنے کا راستہ نکالنا پڑے گا، یہی میکنزم بنانا ہے کہ پیسے کو باہر جانے سے روکا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ باہر جانے والے 200 ڈالرز بھی ظاہر کریں، ایسی غیر مناسب پابندی بھی نہیں لگا سکتے۔ اصل مقصد پیسے کی بیرون ملک منتقلی روکنا ہے۔ کیس کی مزید سماعت یکم اگست تک ملتوی کردی۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں کا معاملہ پندرہ روز میں حل کرنے کا حکم دے دیا جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ہے جو لوگ لائن میں لگے ہیں ان کو سرکاری گھر ملنا چاہئے، آئی جی اسلام آباد متعلقہ فریقین کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں، پولیس نے گھر خالی نہ کیے تو رینجرز کو مدد کے لئے بلائیں گے۔ سرکاری گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صالح ظافر کس قانون کے تحت جی سکس میں رہ رہے ہیں، سیکرٹری ہائوسنگ نے جواب دیا کہ صالح ظافر سے گھر خالی کروا لیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس اہلکار ہماری فورس ہے جو لوگ لائن میں لگے ہیں ان کو سرکاری گھر ملنا چاہیے، آئی جی اسلام آباد متعلقہ فریقین کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں، 35 کروڑ کے واجبات فلیٹس پر قابض پولیس اہلکاروں نے ادا کرنے ہیں، 15 دن کے بعد جو قانون نے اجازت دی وہ حکم جاری کریں گے، سیکرٹری ہائوسنگ نے عدالت کو بتایا کہ وزارت ہائوسنگ کے پاس صرف تین پولیس اہلکار ہیں عملہ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے مشکلات کا سامنا ہے، پولیس کا قبضہ غیر قانونی ہے، ایک پولیس ملازم کا کہنا تھا کہ 22 سال سے سروس میں ہوں مجھے کوئی الاٹمنٹ نہیں ہوئی، ہمیں چاہے کچی بستی میں ہی گھر الاٹ کروا دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو کچی بستیاں بھی پکا کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ بعد ازاں عدالت نے پولیس اہلکاروں کی جانب سے سرکاری گھروں پر قبضے کا معاملہ 15 دن میں حل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پندرہ روز کے لئے ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پولیس نے لال مسجد آپریشن کی آڑ میں قبضہ کیا، غیر قانونی قابضین گھر فوری طور پر واپس کریں۔ پولیس بلا شبہ ہماری فورس ہے لیکن کسی کا حق نہیں ماریں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جی سکس اور جی سیون کے فلیٹس میں زلزلہ متاثرین آباد تھے، لال مسجد آپریشن کے لئے رینجرز کو فلیٹس میں ٹھہرایا گیا۔ رینجرز کے بعد اسلام آباد پولیس نے فلیٹ لے لیے۔ اب اسلام آباد پولیس کے اہلکار گھر خالی نہیں کر رہے۔ پولیس کے ذمہ 35 کروڑ کرایہ واجب الادا ہیں۔ عدالتی حکم کے باوجود بجلی و گیس کے غیر قانونی کنکشن جاری ہوئے۔ پولیس کرایہ دے تو 35 کروڑ روپے ڈیم فنڈز میں جائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد پولیس فلیٹ خریدنا چاہتی ہے۔