سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی وجہ سے ملک بھر میں توجہ کا مرکز
فیصل آباد (احمدجمال نظامی سے) این اے 106 ،سابقہ این اے 81 ،فیصل آباد VI، دس سالوں تک پنجاب کے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ کی وجہ سے ملک بھر اور بالخصوص پنجاب بھر میں خصوصی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مبصرین اس حلقے پر اپنی نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں جبکہ ماضی کے دو معروف سیاستدانوں کے داماد تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں موجود ہیں۔ این اے 106 میں آرائیں، جٹ، راجپوت، گجر، کھرل، ملک، انصاری اور رحمانی برادری کی اکثریت ہونے کی وجہ سے مقابلے کی فضا انتہائی کٹھن بن چکی ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں اس حلقہ انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ اس سے قبل وہ 1997ئ، 2002ئ، 2008ء اور 2013ء میں متواتر پی پی 113سابقہ پی پی 70 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے اندرونی حلقوں کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے مسلم لیگ(ن) کے صدر بننے کے بعد وفاق میں بطور وزیراعظم کے امیدوار کی بناء پر رانا ثناء اللہ خاں این اے 106 سے میدان میں اترے ہیں تاکہ اگر شہبازشریف وزیراعظم پاکستان بنے تو رانا ثناء اللہ خاں 2008ء اور 2013ء کی پنجاب میں شہبازشریف کی صوبائی کابینہ کا اہم ترین حصہ لینے کی طرح ان کی وفاقی کابینہ کا حصہ بنتے ہوئے ان کے فرنٹ مین کے طور پر کردار ادا کر سکیں۔ رانا ثناء اللہ خاں 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کے دوران وزیراعلیٰ ٹو کے نام سے جانے جاتے رہے ہیں اس کے علاوہ ان کی وجہ شہرت متنازعہ بیانات ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اپوزیشن کی جماعتیں ان کے کردار کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ تحفظ ختم نبوت پر متنازعہ بیان سے لے کر تحریک انصاف خواتین کے بارے میں ناشائستہ الفاظ کے حوالے سے ان کے کردار کو بار بار متنازعہ بیانات کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ 1990ء میں جب وہ پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر تھے تو چنیوٹ میں ایک جلسے کے دوران محترمہ کلثوم نواز کے بارے میں متنازعہ بیان دینے پر پیپلزپارٹی کی تاحیات چیئرپرسن کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے رانا ثناء اللہ خاں کو 1990ء میں پیپلزپارٹی کا ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔ رانا ثناء اللہ خاں نے اپنی سیاست کا آغاز 1983ء میں پیپلزپارٹی سے شروع کیا۔ 1988ء میں بھی وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ٹکٹ حاصل نہ کر سکے اور ان دنوں رانا ثناء اللہ خاں ایک وکیل کے طور پر سکوٹر پر شہر میں گھومتے پھرتے تھے تاہم پیپلزپارٹی کی چیئرمین محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سخت ناراضگی کے بعد مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما سابق میئر اور نوازشریف کے قریبی رشتے دار چوہدری شیرعلی جو کہ سابق وزیرمملکت عابد شیرعلی کے والد بھی ہیں وہ رانا ثناء اللہ خاں کو 1990ء میں مسلم لیگ(ن) میں لے آئے اور کیونکہ چوہدری شیرعلی این اے 108 سابقہ این اے 84 اور اس کی ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہوئے تھے اس لئے انہوں نے اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر رانا ثناء اللہ کو اپنی جگہ میدان میں اتارا مگر رانا ثناء اللہ خاں پیپلزپارٹی کے اسماعیل سیلا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گئے۔ 1993ء میں چوہدری شیرعلی نے مسلم لیگ(ن) فیصل آباد کے کرتا دھرتا کی حیثیت سے اس نشست یعنی سابقہ پی پی 70 اور موجودہ پی پی 113 سے رانا ثناء اللہ خاں کو کامیاب کروایا۔ اب مسلم لیگ(ن) میں چوہدری شیرعلی اور رانا ثناء اللہ خاں کے درمیان اس حد تک تنازعہ پایاجاتا ہے کہ دونوں نے باقاعدہ اپنے اپنے گروپ بنا لئے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت تو درکنار مسلم لیگ(ن) کے قائدین شہبازشریف اور نوازشریف بھی انہیں راضی کرنے میں مسلسل ناکام ہیں بلکہ چوہدری شیرعلی تو دو تین مرتبہ ناراض ہو کر شہبازشریف کے خلاف بھی پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔ چوہدری شیرعلی اور رانا ثناء اللہ کے گروپوں کی بناء پر رانا ثناء اللہ خاں ہمیشہ ہی چوہدری شیرعلی گروپ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں، کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو نہ صرف تنگ کرتے رہے بلکہ ان کے گرد سیاسی گھیرا بھی بہت زیادہ تنگ کر دیا گیا۔ این اے 106 میں 2013ء کے عام انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے سابق ضلعی صدر اور رکن قومی اسمبلی چوہدری الیاس جٹ مرحوم کے داماد ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور رانا ثناء اللہ خاں اس حلقہ انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 108 جہاں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ ہولڈر میاں اجمل آصف کامیاب ہونے کے بعد جعلی ڈگری نکلنے پر نااہل ہوئے تھے ضمنی انتخابات میں میاں اجمل آصف کی انتخابی مہم چلانے گھسے اور پھر انہوں نے 2013ء سے 2018ء تک اس حلقے پر میاں اجمل آصف کی صورت میں پوری گرفت برقرار رکھی۔ دوسری طرف این اے 106 کے دوسری صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 109 جہاں سے نوازشریف نے مسلم لیگ(ن) یوتھ ونگ کے رہنما کاشف نواز رندھاوا کو 2013ء میں ٹکٹ دیا تھا اور وہ 2008ء کے انتخابات کے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی ظفراقبال ناگرہ سے شکست کھا گئے تھے۔ ظفراقبال ناگرہ آزاد حیثیت سے الیکشن جیت کر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے تھے اور رانا ثناء اللہ خاں نے اس طرح سے ڈاکٹر نثار احمد جٹ جو چوہدری شیرعلی گروپ میں شامل تھے ان پر نہ صرف کئی مقدمات قائم کروائے بلکہ ان کے لئے بطور رکن قومی اسمبلی پنجاب حکومت کی طرف سے فنڈز کا اجراء بند کروا دیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ، ڈویژنل انتظامیہ، پولیس اور کسی بھی سرکاری محکمے میں ڈاکٹر نثار احمد جٹ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے ہونے کے باوجود صفر کر دیئے گئے تھے۔ لہٰذا رانا ثناء اللہ خاں این اے 106 سے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بہت پہلے سے پر تول رہے تھے اوراس کی تیاری غالباً 2013ء کے عام انتخابات کے بعد شروع ہو گئی تھی۔ بالاخر الیکشن کمیشن کے فارم میں قادیانیوں کے حلف نامے کو اقرارنامے میں تبدیل کرنے اور رانا ثناء اللہ خاں کی طرف سے قادیانیوں کے بارے میں متنازعہ بیان دینے پر ڈاکٹر نثار احمد جٹ بطور رکن قومی اسمبلی اپنی نشست سے مستعفی ہو گئے اور انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ ڈاکٹر نثار حمد جٹ نے پہلی مرتبہ گریجوایشن ڈگری کی شرط عائد ہونے پر اپنے سسر الیاس جٹ مرحوم کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ میرپور خاص کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھی زبان فر فر بولتے ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد جٹ اس حلقہ انتخاب میں مضبوط امیدوار ہیں اور دوسری طرف رانا ثناء اللہ خاں بھی مضبوط امیدوار تو ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی طرف سے 2008ء کے انتخابات میں اپنے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی چوہدری سعیداقبال کو ٹکٹ دیا ہے۔ چوہدری سعیداقبال معروف سیاست دان چوہدری طالب حسین کے داماد ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے این اے 106 میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ پی پی 108 میں سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں اجمل آصف اور پی پی 109 میں ظفراقبال ناگرہ۔ تحریک انصاف نے این اے 106 میں ڈاکٹر نثار احمد جٹ کے ساتھ پی پی 108 میں سابق رکن اسمبلی پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر رانا آفتاب احمد خاں اور پی پی 109 میں سابق لائلپور ٹاؤن نائب ناظم ندیم آفتاب سندھو کو اپنے ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ رانا آفتاب احمد خاں ایک مضبوط امیدوار ہیں اور ان کا سارا فائدہ تحریک انصاف کے این اے 106 کے امیدوار ڈاکٹر نثار احمد جٹ کو ہو گا۔ رانا آفتاب احمد خاں 1988ء میں پہلی مرتبہ اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ 1990ء میں انہوں نے اس وقت این اے 106 میں پیپلزپارٹی کے امیدوار چوہدری سعیداقبال کے سسر چوہدری طالب حسین سے شکست کھائی۔ ان دنوں چوہدری طالب حسین مسلم لیگ(ن) میں تھے۔ 1993ء میں رانا آفتاب احمد نے چوہدری طالب حسین کو شکست دی۔ 1997ء میں چوہدری طالب حسین دوبارہ کامیاب ہوئے۔ 2002ء میں رانا آفتاب احمد نے پھر اسی نشست کا معرکہ سر کیا۔ 2008ء میں انہیں مسلم لیگ(ق) کے اجمل آصف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ رانا آفتاب احمد خاں ایک پڑھے لکھے سیاست دان ہیں اور وہ سلجھی ہوئی سیاست کرتے ہیں اس لئے میاں اجمل آصف کے مقابلے میں وہ اسلحہ برداروں کی بھرمار سے گریز کرتے رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے اس وقت پیپلزپارٹی کے ڈویژنل کوارڈی نیٹر راجہ ریاض احمد خاں کے ساتھ شدید مخالفت تھی اس لئے انہوں نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا کیونکہ انہیں پورا یقین تھا کہ 2008ء میں اس حلقے سے شکست سے دوچار ہونے کی اصل وجہ راجہ ریاض احمد خاں کی خفیہ مخالفت اور مخالفین سے گٹھ جوڑ تھا۔ 2008ء میں رانا آفتاب احمد خاں جب اس حلقے سے شکست سے دوچار ہوئے تو وہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر تھے لیکن انہوں نے پارٹی عہدے سے بھی یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اس کے مستحق نہیں۔ انہوں نے نگران حکومت قائم ہونے سے کئی ہفتے پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ متحدہ مجلس عمل نے این اے 106 میں ممتاز حسین، پی پی 108 میں عفیفہ صدیقی اور پی پی 109 میں محمد عظیم طاہر رندھاوا۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے این اے 106 میں محمد عباس حیدر، پی پی 108 میں محمد مقصود اور پی پی 109 میں بشارت علی کو اپنے ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ ملی مسلم لیگ نے اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے این اے 106 ، پی پی 108 اور پی پی 109 میں کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا۔ پیپلزپارٹی نے این اے 106 میں چوہدری سعید اقبال کے ساتھ پی پی 108 میں ندیم حیات خاں کو میدان میں اتارا ہے لیکن پی پی 109 میں کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کر سکی۔ اس حلقہ کی کل آبادی 777621 ہے جبکہ 232884 مرد اور 182612 خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے 25جولائی کو ووٹنگ کے لئے 363پولنگ سٹیشن اور 1000پولنگ بوتھ قائم کئے جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے اس حلقہ این اے 106 میں کل 8 اس کے صوبائی اسمبلی کے ذیلی حلقوں پی پی 108 اور پی پی 109 میں بالترتیب گیارہ گیارہ امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ این اے 106 میں مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی تینوں جماعتوں کے امیدوار انتہائی مضبوط ہیں۔ تحریک انصاف کے این اے 106 کے امیدوار جو کہ چوہدری الیاس جٹ کے داماد ہیں ان کے سسر چوہدری الیاس جٹ مرحوم 1993ء میں سابق رکن اسمبلی اور سابق چیئرمین ضلع کونسل چوہدری نذیر مرحوم کی وفات پا جانے کے بعد پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اس سے قبل چوہدری نذیر مرحوم جو کہ موجودہ چیئرمین ضلع کونسل زاہد نذیر چوہدری کے والد ہیں وہ 1985ئ، 1988ء اور 1990ء میں اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ چیئرمین ضلع کونسل بھی رہے۔ چوہدری نذیر مرحوم نے این اے 105 میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ ہولڈر اور 6مرتبہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی رہنے والے میاں فاروق کو سیاست میں متعارف اور کامیاب کروایا تھا لیکن این اے 106 میں 1997ء کے انتخابات کے دوران انہی میاں محمد فاروق نے چوہدری نذیر مرحوم کے بیٹے شاہد نذیر کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں شکست دلوائی تاہم 2002ء میں گریجوایشن کی شرط عائد ہونے کے بعد ڈاکٹر نثار احمد جٹ الیاس جٹ کی جگہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں اترے۔ انہوںنے 58855 ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ق) کے چوہدری طالب حسین کو شکست دی جنہوںنے 51125 ووٹ حاصل کئے۔ چوہدری طالب حسین بلندپائے کے سیاست دان رہے لیکن بار بار سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے کے اعتبار سے اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ 2002ء کے ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر شہباز کسانہ نے 9974 ووٹ حاصل کئے۔ شہباز کسانہ مسلسل تحریک انصاف کی ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ این اے 106 میں 2008ء کے عام انتخابات کے دوران چوہدری طالب حسین کے داماد چوہدری سعیداقبال نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 65322 ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ق) کے ڈاکٹر نثار احمد جٹ کو شکست دی جنہوں نے 55646 ووٹ حاصل کئے۔ ڈاکٹر نثار احمد جٹ 2008ء کے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ(ق) میں شامل ہو گئے تھے اور قومی اسمبلی میں انہوں نے اس پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کا حصہ بننا پسند کیا تھا جس نے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پرویزمشرف کو باوردی صدر قبول کیا تھا۔ 2008ء کے ان انتخابات میں معروف اور بزرگ سیاست دان نثار اکبر خاں نے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر 23305 ووٹ حاصل کئے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی جماعت تبدیل کی اور مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر میدان میں اترے۔ انہوںنے 122041 ووٹ حاصل کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چوہدری سعید اقبال کو شکست دی جنہوں نے 40163 ووٹ حاصل کئے۔ تحریک انصاف کی طرف سے معروف سیاسی اور بیوروکریٹک خاندانی پس منظر رکھنے والے جہانگزیب امتیاز گل نے 28578 ووٹ حاصل کرتے ہوئے شکست کھائی۔ این اے 106 میں نڑوالا، ٹھیکریوالا، گٹ والا کے تین چک شامل ہیں جبکہ یہ حلقہ 87 دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی ہونہار آئی ٹی کی ماہر طالبہ ارفع کریم مرحوم بھی رام دیوالی کے جس قبرستان میں سپردخاک ہے وہ علاقہ اس حلقہ میں شامل ہوتا ہے۔ ارفع کریم کا آبائی علاقہ چک رام دیوالی تھا جس کا نیا نام ارفع کریم نگر رکھا جا چکا ہے۔ حلقے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری جو کہ رانا ثناء اللہ خاں کے کزن بھی ہیں ان کی کچھ زمین شامل ہوتی ہے۔ این اے 106 میں کچھ بھٹے اور کولڈسٹور بھی قائم ہیں جبکہ بڑی تعداد میں پاور لوم انڈسٹری موجود ہے جس میں سے اکثر انڈسٹری کباڑ مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہے۔ این اے 106 میں رانا ثناء اللہ خاں اور ڈاکٹر نثار احمد جٹ کے مابین ون ٹو ون مقابلہ جاری ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں پنجاب حکومت کا اہم حصہ ہونے اور اپنے سیاسی قدکاٹھ کے باوجود حلقے میں شدید مشکلات سے بھی دوچار ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس حلقے میں رانا ثناء اللہ خاں اور ڈاکٹر نثار احمد جٹ میں سے کون کامیاب ہو گا؟ اس سوال کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ دونوں کا ففٹی ففٹی چانس ہے۔