طلال چودھری نے کبھی معافی نہیں مانگی ، مقدمہ عدالتی تحمل کا ہے :سپریم کورٹ ، فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے طلال چوہدری توہین کیخلاف عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فیصلے کے روز لیگی رہنما کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ طلال چوہدری پر توہین آمیز بیانات پر فرد جرم لگائی گئی۔بدھ کو سپریم کورٹ میں طلال چوہدری کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل طلال چوہدری کامران مرتضیٰ نے بتایاآرٹیکل 2011میں توہین عدالت کا نوٹس لینے کا اختیار عدلیہ کو ہے، چیف جسٹس انفرادی حیثیت سے توہین عدالت کا نوٹس نہیں لے سکتے، طلال چوہدری کے خلاف نوٹس ستمبر 2017کے بیانات پر لیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نوٹ میں جنوری 2018کے بیانات کا بھی ذکر ہے، ستمبر 2017کے بیانات کو ہم زیر غور نہیں لائے۔ کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ یکم فروری کو رجسٹرار نے چیف جسٹس کو نوٹ لکھا، یکم فروری کو ہی طلال چوہدری کو نوٹس جاری کر دیا گیا، طلال چوہدری نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین سب سے بڑی توہین ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ لیگی رہنما نے عدالتی فیصلے کے حوالے سے بات کی۔ وکیل ٰ نے بتایا کہ رجسٹرار نے بائیس مختلف اخباری تراشے پیش کئے تھے۔ نوٹس صرف دو تقاریر پر لیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ طلال چوہدری پر توہین آمیز بیانات پر فرد جرم لگائی گئی۔ وکیل نے بتایا کہ طلال چوہدری پر توہین عدالت کا الزام غلط ہے، شوکاز نوٹس میں توہین آمیز تقریر کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ہمارے پاس توہین آمیز تقاریر کا ریکارڈ موجود ہے۔وکیل طلال چوہدری نے کہاعمران خان اور طاہر القادری کیس میں بھی عدالتی تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ عمران خان نے عدالت سے متعلق ’’شرمناک‘‘ کے الفاظ استعمال کئے، آپ بڑے ہیں اور میرے موکل چھوٹے ہیں، مرزا اسلم بیگ کیس میں بھی تحمل کا مظاہرہ کیا گیا، اس کیس میں بھی عدالتی تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا ہم سب پاکستانی ہیں، چھوٹا بڑا کوئی نہیں۔ قانون کے تحت ہم پر ذمہ داری عائد ہے کہ انصاف دیں۔ کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ تضحیک کی نیت نہیں تھی۔ جوش خطابت میں الفاظ دہرائے گئے، سپریم کورٹ نے طلال چوہدری توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے فیصلے کے روز لیگی رہنما کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیس کے فیصلے سے متعلق کوئی تاریخ نہیں دے سکتے۔ مناسب وقت پر سنایا جائے گا۔ وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ طلال چودھری نے اپنے بیانات سے کبھی انکار نہیں کیا، آرٹیکل 19 توہین آمیز تقاریر کی اجازت نہیں دیتا۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے طلال چودھری نے کبھی معافی نہیں مانگی، طلال چودھری کا مقدمہ عدالتی تحمل کا ہے۔