نگران حکمران سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ کہیں یہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش تو نہیں
خودکش حملے میں اے این پی کے ہارون بلور سمیت 21 افراد کی شہادت۔ چیف الیکشن کمشنر کے سکیورٹی انتظامات پر تحفظات
پشاور کے علاقے یکہ توت میں منگل کی شب عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجہ میں این اے 31 اور پی کے 78 سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 21 افراد شہید اور 62 سے زائد زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق 15 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جنہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ ہارون بلور 2012ء میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں شہید ہونیوالے اے این پی کے مرکزی رہنماء بشیر بلور کے صاحبزادے‘ حاجی غلام احمد بلور کے بھیتجے اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ مروت کے داماد تھے۔ انکی شہادت کی خبر سنتے ہی ہسپتال میں موجود لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے جبکہ اے این پی کے مشتعل کارکنوں نے نعرے بازی بھی کی۔ پولیس کے مطابق ہارون بلور کی آمد پر آتش بازی کی جارہی تھی کہ اسی دوران خودکش حملہ آور نے ہارون بلور کے قریب پہنچ کر خود کو اڑالیا جس کے نتیجہ میں ہر طرف تباہی پھیل گئی اور جائے وقوعہ پر ہارون بلور سمیت 13 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ ہسپتال منتقل کئے گئے شدید زخمیوں میں سے بھی آٹھ افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ہارون بلور ہی خودکش حملہ آور کا اصل ہدف تھے۔ خودکش حملے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شواہد جمع کرنا شروع کردیئے۔
دہشت گردی کی اس بھیانک واردات کی خبر سنتے ہی پورے ملک میں سوگ کی کیفیت پیدا ہوگئی اور انتخابات کے پرامن انعقاد کے دعوئوں پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے جبکہ ملک کے تمام قومی سیاسی قائدین اور قومی اداروں کے سربراہان نے دہشت گردی کی اس واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بلور فیملی کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان نے دہشت گردی کی اس واردات کو سکیورٹی اداروں کی کمزوری قرار دیا اور کہا کہ یہ حملہ شفاف انتخابات کیخلاف ایک سازش ہے۔ انہوں نے اپنے تعزیتی بیان میں باور کرایا کہ صوبائی حکومتوں کو تمام امیدواروں کیلئے یکساں اور فول پروف سکیورٹی کے احکام دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ذمہ داروں کو کیفرکردار کو پہنچایا جائیگا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور دھماکے میں بیرسٹر ہارون بلور سمیت قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور کہا کہ سیاسی اختلافات چاہے کتنے ہی شدید ہوں‘ گردنیں مارنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور سے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ وہ ہارون بلور کی شہادت پر بہت غمگین ہیں۔ انکے بقول جمہوریت پسندوں پر دہشت گرد حملہ بہت بڑی سازش ہے۔ قوم کو معلوم کرنا چاہیے کہ یہ دہشت گرد آخر کیا چاہتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف اور دوسرے قومی سیاسی قائدین آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمان‘ سراج الحق‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ مصطفیٰ کمال اور چاروں نگران وزراء اعلیٰ نے بھی پشاور دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کو عبرت کا نشانہ بنانے کا تقاضا کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے لندن سے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ دہشت گرد ملک میں جمہوریت کا راستہ روکنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں‘ وہ کل بھی ناکام ہوئے اور آج بھی ناکام ہونگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی اصل ذمہ داری پرامن فضا میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی ہے جس کیلئے ملک کے سکیورٹی اداروں نے انکی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ ملک میں بالخصوص گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردوں کے ہاتھوں امن و امان کی فضا انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ 2007ء کے انتخابات کی مہم کے دوران پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوئیں جس کے باعث انتخابات ایک ماہ کیلئے مؤخر ہوگئے جبکہ دہشت گردی کی اس گھنائونی واردات سے ایک ماہ قبل انکی ملک واپسی کے موقع پر بھی کراچی میں انکے استقبالی جلوس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں مگر انکی پارٹی کے ڈیڑھ سو کے قریب کارکن شہید ہوگئے۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات بھی دہشت گردوں کی پیدا کردہ خوف و ہراس کی فضا میں منعقد ہوئے جس کے باعث سیاسی جماعتیں اور انکے قائدین کھل کر انتخابی مہم بھی نہ چلا سکے۔ بالخصوص پیپلزپارٹی کے قائدین اپنے گھروں سے بھی باہر نہ نکل سکے جس کا انہیں عوام کے ہاتھوں بری طرح مسترد ہونے کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔
اگرچہ آج دہشت گردی کے حوالے سے 2007ء اور 2013ء جیسی سنگین صورتحال نہیں ہے اور سکیورٹی اداروں کی معاونت سے ملک بھر میں سخت اپریشنز کرکے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عملاً دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی جس کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس وقت اپنی انتخابی مہم کے دوران کریڈٹ بھی لے رہی ہے۔ اسکے باوجود انتخابی عمل کے دوران امن و امان کو ہر ممکنہ حد تک یقینی بنانا نگران حکمرانوں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جس کیلئے انکی جانب سے دعوے بھی کئے جاتے رہے ہیں مگر گزشتہ روز پشاور میں اے این پی کی کارنر انتخابی میٹنگ کے موقع پر خودکش حملہ آور کی جانب سے اے این پی کے قائد اور انتخابی امیدوار بیرسٹر ہارون بلور کو اپنا آسان ہدف بنانے سے نگران حکمرانوں کے فول پروف سکیورٹی سے متعلق دعوئوں کی بہرصورت قلعی کھل گئی ہے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر خود بھی دہشت گردی کی اس واردات کو سکیورٹی اداروں کی کمزوری سے تعبیر کررہے ہیں اور اسے شفاف انتخابات کیخلاف ایک سازش قرار دے رہے ہیں تو یہ متعلقہ سکیورٹی اداروں کے سربراہان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے جنہیں اس معاملہ کا بہرصورت سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ سکیورٹی اداروں کی توجہ اپنی اصل ذمہ داریوں سے کسی دوسرے معاملہ پر مرتکز ہونے کے باعث تو سکیورٹی لیپس پیدا نہیں ہوگئے جن سے دہشت گردوں اور انکے معاونین و سرپرستوں کو فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملا ہے۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پشاور دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پشاور میں ہارون بلور شہید کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے اور آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم دہشت گردوں کی جانب سے پشاور دھماکہ کی صورت میں انتخابی عمل کو نقصان تو پہنچایا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ہارون بلور کی شہادت کے باعث قومی اور صوبائی اسمبلی کے متعلقہ حلقوں کا انتخاب مؤخر کردیا ہے۔ اگر خدانخواستہ دہشت گردی کی ایسی کوئی واردات ملک کے کسی دوسرے حصے میں بھی ہوگئی تو پرامن اور بروقت انتخابات کا انعقاد مشکوک ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے چیف الیکشن کمشنر کے بیان کی روشنی میں نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جوابدہ ہونا چاہیے کہ وہ تمام امیدواروں کی یکساں سکیورٹی کی ذمہ داریاں کماحقہ کیوں ادا نہیں کر پائیں۔
اے این پی ویسے بھی امن کی داعی جماعت ہے جس کی قیادت کی جانب سے بالخصوص صوبہ خیبر پی کے اور شمالی جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس جماعت کے ہی اہم قائدین اور انکے عزیز و اقارب دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ایک سابق دور حکومت میں اے این پی کے صوبائی وزیر افتخارالدین کے اکلوتے صاحبزادے دہشت گردی کی ایک گھنائونی واردات میں شہید ہوئے‘ پھر اے این پی کے مرکزی قائد بشیر احمد بلور جو دہشت گردوں کو چیلنج دیتے اپنی پارٹی کے اجتماعات میں شریک ہوا کرتے تھے‘ بالآخر دہشت گردوں کے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ اب انکے صاحبزادے ہارون بلور کو دہشت گردوں نے اپنی سفاکی کا ہدف بنایا ہے تو یہ درحقیقت دہشت گردوں کی جانب سے ہمارے سکیورٹی اداروں‘ امن کے داعیان اور جمہوریت کے علمبرداروں کو کھلا چیلنج ہے۔ ان دہشت گردوں کا ایجنڈا تو خوف و ہراس اور مسلسل افراتفری کی فضا گرما کر اس ملک خداداد کی سالمیت کو کمزور کرنے کا ہے اس لئے ملک کی سلامتی کے تحفظ کی ذمہ دار عساکر پاکستان کو اپنی اس ذمہ داری کیلئے بہرحال ہمہ وقت فعال اور مستعد رہنا ہے اور اپنی تمام تر توجہ اپنی اصل ذمہ داری پر ہی مرکوز رکھنی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب اس قومی ادارے کی توجہ کسی دوسرے معاملے کی جانب مرکوز ہوتی ہے تو دہشت گردوں کو اس سے ہی فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع ملتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پرامن اور آزادانہ فضا میں 25 جولائی کے انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے زیادہ تر ذمہ داری عساکر پاکستان کو ہی سونپی ہے جس کے ساڑھے تین لاکھ کے قریب ارکان کو اس ذمہ داری پر مامور کیا گیا ہے اس لئے انتخابی عمل کے دوران پشاور دھماکے جیسی کوئی مذموم واردات ہوگی تو پھر ہمارے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا بھی فطری امر ہوگا۔ چنانچہ اسی تناظر میں پشاور دھماکے کے تمام پہلوئوں اور پس پردہ محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر سکیورٹی اداروں میں موجود کسی بھی قسم کے لیپس پرفوری قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔