جمعرات‘ 27؍ شوال المکرم 1439 ھ ‘ 12؍ جولائی 2018ء
گوجرانوالہ میں حلقے کے ووٹروں نے سابق وفاقی وزیر کی گمشدگی کا بینر لگا دیا
ظاہر ہے جب 5 سال کوئی شخص اپنے گلی محلے میں نظر نہیں آئیگا۔ غائب رہے گا تو اہل علاقہ کو‘ محلہ داروں کو اس پرتشویش تو ہو گی۔ یہی کچھ سابق وزیر کے حلقے کے لوگوں نے بھی کیا اور ایک بینر لگا دیا ہے جس میں 5 سال سے لاپتہ اس ایم این اے جو خیر سے وزیر بھی ہیں کی تلاش میں مدد کی اپیل کی ہے اور ان کی اطلاع دینے والے کیلئے معقول انعام کا بھی لکھا ہے۔ اب موصوف خود ہی بھیس بدل کر حلقے میں آئیں اور اپنی موجودگی ظاہر کر کے انعام کے حقدار بن جائیں۔ انکے علاقے کے عوام نے 5 سال قبل 2013ء میں اس معزز شخص کو گلی گلی کوچہ کوچہ علاقے کی قسمت بدلنے کے نام پر ووٹ مانگتے دیکھا تھا۔ ووٹر تو ویسے ہی سادہ لوح ہوتے ہیں۔ انہوں نے انکی بزرگی اور شریفانہ وضع قطع دیکھ کر ان پر اپنے ووٹ نچھاور کئے بس وہ دن اور آج کا دن‘ موصوف نے پلٹ کر ان گلیوں اور گھروں کی طرف نہیں دیکھا جہاں ہاتھ پھیلا کر سچے جھوٹے وعدے کر کے وہ کامیاب ہوئے تھے۔ یہ المیہ صرف اس ایک حلقے کا نہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں ہر گائوں ہر حلقے میں یہی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ عوامی نمائندوں کے انہی اعمال کی وجہ سے ان کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت سے ہو عوام تنگ آ چکے ہیں۔ کراچی سے لیکر پشاور تک اب ووٹر جاگ چکے ہیں وہ ہر آنیوالے ووٹ مانگنے والے سیاستدان سے یہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ 5 سال سے کہاں تھے۔ انکی کارکردگی کیا ہے۔ وہ وعدے کہاں گئے جو کئے تھے۔ اس سے لگتا ہے اب کی بار امیدواروں کیلئے انتخابی مہم چلانا آسان نہ ہو گی۔ قدم قدم پر انہیں سوالات کا احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اب وہی لوگ ووٹ مانگنے آئیں گے جن کے عوام سے رابطے بحال رہے۔
٭……٭……٭
بلوچستان کے کئی بند کیسز میں شواہد موجود، دوبارہ کھولے جائینگے: چیئرمین نیب
اس وقت نیب کے چیئرمین بلوچستان کے دورے پر ہیں۔ کوئٹہ میں ان کے خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وہاں نیب میں چلنے والے کیسوں کا جائزہ لیا تو انہیں پتہ چلا کہ یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ گڈگورننس کے حساب سے سب سے بدتر صورتحال بلوچستان میں نظر آتی ہے۔ کوئی محکمہ کوئی وزیر کوئی ٹھیکیدار دیکھ لیں سرتاپا کرپشن میں غیر قانونی کاموںمیں لتھڑا نظر آئے گا۔ نیچے سے اوپر تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔ خود نیب بلوچستان کے معاملات پر بھی اگر فرصت ملے تو چیئرمین صاحب نظر ڈالیں۔ ہر سیر پر سوا سیر ملے گا۔ نیب خود کرپشن کو مٹانے کی بجائے کرپشن کو بڑھاوا دیتا نظر آئے گا۔ سو بسم اللہ ذرا اپنے ادارے سے کیجئے۔ ایسے کیس ملیں گے کہ آپ بند کیسوں کو بھول جائیں گے۔ آپ کو وہ بند سوٹ کیس بھی کھولنا پڑیں گے، جو ابھی تک کھولے نہیں گئے یہ سب بطور منہ بندی نیب والوں کو ہدیہ کئے ہیں۔ جن بند کسیز کی آپ بات کرتے ہیں ان کو نہ کھولنے کی جو قیمت بلوچستان میں دی جاتی ہے وہ لاکھوں نہیں کروڑوں ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں برسوں سے بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ذرا اپنے ادارے والوں سے پوچھیں تو سہی یہ کیسز جن میں ملوث لوگوں کو جیل میں ہونا چاہئے تھا بند کیوں ہوئے ان پر کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ آپ سے ایک گزارش اور بھی ہے۔ ذرا نیب کے دفتر سے نکل کر چپکے سے کوئٹہ شہر کی حالت ہی دیکھ لیں آپ کو ساری کہانی سمجھ آ جائے گی۔ باقی بلوچستان کا تو اس سے بھی بدتر حال ہے۔ قدم قدم پر اجڑا ہوا شہر کرپشن کی ساری کہانی خودسناتانظر آئے گا۔
٭……٭……٭
بے نظیر بھٹو قتل کیس کا ملزم کوٹ لکھپت جیل سے غائب اور رائو انوار کی ضمانت
اس غائب ہونے والے کے والد کو تو ملزم کی گمشدگی کا پتہ چل گیامگر آفرین ہے ہمارے جیل کے عملے پر کہ انہیں پتہ نہیں چلا کہ اہم کیس کا ملزم کہاں گیا۔ اب اگر پولیس نے اسے روایتی کارروائی کر کے پار نہ کر دیا ہو تو وہ علیحدہ بات ہے۔ ایسے ملزمان کو بااثر لوگ اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے خود ہی راہ سے ہٹانے کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ ورنہ یہ ملزم کوئی چوزہ تو تھا نہیں کہ جیل کے اوپر سے اُڑتی چیل اسے اچک کر لے گئی ہو اور جیل کا عملہ ہاتھ ملتے رہ گیا ہو۔ نہ ہی ایسی کوئی اطلاع ہے کہ جیل کی زمین پھٹ گئی اور اس نے ملزم کو نگل لیا۔ اگر زیادہ ہی نرمی سے کام لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ ملزم کو اچھے چال چلن کی وجہ سے جیل کے باہر جاکر سبزی اور پرچون کا سامان لانے کی رعایت دی گئی تھی۔ اس نے اسی رعایت سے فائدہ اُٹھایا اور غائب ہو گیا واپس نہیں آیا۔ رعایتوں سے یاد آیا ایک ایسی ہی رعایت نقیب قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رائو انوار کو بھی دی اور اس کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ رائو انوار بھی اچھے چال چلن والے شخص ہیں اس لئے گرفتاری کے بعد بھی حوالات اور جیل سے عدالت آتے جاتے ہوئے انہیں ہتھکڑی نہیں لگائی جاتی تھی اور انہیں جیل میں مناسب سہولتیں بھی میسر رہیں۔ اب ضمانت کے بعد موصوف بتا رہے ہیں کہ میں وقت آنے پر بتائوں گا کہ مجھے اس مقدمے میں کس نے ملوث کیا۔ شاید بے نظیر کے قتل کا ملزم بھی وقت آنے پر ظاہر ہو کر بتائے کہ اسے جیل سے غائب کس نے کرایا۔
٭……٭……٭
انسداد تجاوزات سکواڈ امیدواروں کے بینرز اُتارنے میں مصروف
جیسی پھرتیلی کارروائیاں انسداد تجاوزات والے الیکشن مہم میں لگائے گئے بینروں اور پوسٹروں کے ساتھ کر رہے اگر اس سے آدھی پھرتی بھی وہ سڑکوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے پر صرف کریں تو کم از کم شہریوں کو آمدورفت میں جو تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں وہ ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ بینرز اور پوسٹرز خلاف قانون سہی مگر نظروں کو برے لگنے کی بجائے رنگارنگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ان کی بدولت لگتا ہے شہروں میں ہر طرف رنگوں کی برسات ہو رہی ہے۔کون کون الیکشن لڑ رہا ہے اسکے برعکس فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر دکانداروں نے جس بدذوقی سے سامان رکھ کر قبضہ کیا ہوتا ہے سڑکوں کی شکل بگاڑی ہوتی ہے۔ وہ تو نظروں کے ساتھ ساتھ دماغ پر بھی بوجھ بنتی ہیں۔ اگر انسداد تجاوزات اسکواڈ والے ذرا اس طرف بھی توجہ دیں تو انتخابی بینروں اور پوسٹروں کے ساتھ ساتھ یہ گند بھی صاف ہو جائے۔ الیکشن کمشن کے انتخابی قواعد پر عمل کرنا امیدواروں کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس پر عمل کریں تو اس میں ان کا فائدہ ہے۔ ورنہ یہی ہو گاوہ بینرز لگاتے جائیں گے انسداد تجاوزات والے اُتارتے جائیں گے۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک بینروں اور پوسٹروں کی پرچموں کی بہار نہ آئے کیسے پتہ چل سکے گا کہ الیکشن کا موسم آیا ہے اور ووٹنگ کی رُت آ رہی ہے۔ جس میں ووٹوں کے پھول کھلیں گے۔ اس لئے انسداد اسکواڈ والے بھی اس موسم کو خوبصورت بنانے کیلئے ذرا شہروںمیں پھیلے تجاوزات کے ناسور ختم کرنے پر بھی زور دیں تو موسم اور سہانا ہو سکتا ہے۔
٭……٭……٭