جس ریاست میں گولی سستی ہو اور آٹا اس قدر مہنگا ہو کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوجائے اس ریاست کا مستقبل کیا ہوگا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے دوران اس قدر گولیاں چلائی گئیں کہ چودہ بے گناہ افراد جان بحق اور دیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ ثابت ہوا پولیس عوام کی خادم نہیں بلکہ حکمران اشرافیہ کی وظیفہ خوار ایجنٹ ہے۔ اشرافیہ کے ایما پر جب چاہے جس کو چاہے پولیس مقابلے کے نام پر مارسکتی ہے۔ انسانی حقوق مخالف متنازعہ تحفظ پاکستان بل میں گریڈ 15 اور 22 تک تمام پولیس افسروں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ شخص پر گولی چلاسکتا ہے۔ ایف سی، رینجرز اور فوج کے لیے گریڈ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر روز کسی نہ کسی شہر میں گولیاں چلتی ہیں۔ ایک خفیہ ایجنسی کے سابق افسر نے بتایا کہ پاکستان میں مخصوص افراد اور سیاسی، مذہبی اور لسانی گروپوں کے پاس اس قدر اسلحہ ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں آٹا بیس روپے من ہوا تو عوامی شاعر حبیب جالب پکار اُٹھا تھا۔
بیس روپے من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر، سہگل، آدمی جی بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
پاکستان کے سنگدل سرمایہ داروں، تاجروں اور جاگیرداروں نے رمضان المبارک کی پروا نہ کرتے ہوئے بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 25 روپے اضافہ کرکے 760روپے کردیا ہے۔ قائداعظم نے ان طبقات کو "Wicked" یعنی ’’بدمعاش‘‘ قراردیا تھا۔ بدمعاش طبقے رمضان کا احترام کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خالد محمود خان نے مہنگائی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ ’’ملک پر بدمعاش مافیا چھایا ہوا ہے‘‘۔ آج آٹا 1600 روپے من ہوچکا ہے مگر پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور سول سوسائٹی خاموش ہیں۔ 2013ء میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا جس کو سپریم کورٹ نے پٹیشن کی صورت میں تبدیل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے دلیر جسٹس جواد ایس خواجہ اس پٹیشن کی سماعت کررہے ہیں۔ مجھے جسٹس خواجہ سے دوملاقاتوں کی سعادت حاصل ہوچکی ہے یہ ملاقاتیں اشرف المخلوقات کے مقام پر زندگی بھر کھڑے رہنے والے جسٹس کے ایم اے صمدانی کی وساطت سے ہوئی تھیں۔ دونوں نیک نام اور روحانی ججوں کے بارے میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۔ایسے ہی فرشتہ سیرت لوگوں کو پاکستان کے حکمران بننا چاہیئے تھا۔ آٹا ملوں کے مالکان کا تعلق چونکہ حکمران اشرافیہ سے ہے اس لیے ان کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ حکومتیں عوام کے مفاد کو ترجیح دینے کی بجائے فلور ملز مالکان کے مفاد کو تحفظ دینے کی کوشش کررہی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا اصرار ہے کہ حکومت غریب ترین افراد کو ٹارگٹ کرکے سبسڈی دے تاکہ ان کو دو وقت کی روٹی میسر آسکے۔ جسٹس خواجہ نے حکومت کو آخری موقع دیتے ہوئے کہا ’’وہ وقت کب آئیگا جب کوئی شہری بھوکا نہیں سوئے گا۔ پارلیمنٹ کے پاس کردہ بلوں اور کمیٹیوں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔ جسٹس جواد خواجہ کی اسلامی علوم پر گہری نظر ہے ان کو علم ہے کہ محسن انسانیت رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ جس بستی میں کوئی شخص ایک رات بھوکا سویا رہے اس بستی سے رب برکت اُٹھالیتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے کہا ہے ’’حکومت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔‘‘
عدلیہ کے جج حکومت کو انتباہ بھی کرتے ہیں اور منت سماجت بھی کرتے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ تاریخی محاورہ ہے کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘۔ عدلیہ کو حکمرانوں کو آئین اور قانون کی کڑی گرفت میں لاکر عبرتناک مثال بنانا ہوگا وگرنہ وہ اقتدار کے نشے میں مست ہی رہیں گے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں ذخیرہ اندوز اور منافع خور خدا کا خوف کرتے ہوئے انسانوں پر رحم کرتے مگر جب ریاست ہی انکی سرپرست بن جائے تو پھر عوام لاوارث ہوجایا کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کے سرپرست بلکہ شراکت دار حکمران عوام کو فریب دینے کیلئے رمضان بازار لگواتے ہیں اور فوٹو سیشن کیلئے چھاپے بھی مارتے ہیں اور پھر عوام کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کرچین کے دورے پر چلے جاتے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز میں لوٹ مار جاری ہے اور عوام کو غیر معیاری اشیاء فراہم کی جارہی ہیں جن کو کھا کر شہری بیمار ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر ان کو ڈاکوئوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ لوٹ مار میں شامل اور حصے دار حکمران کبھی کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے۔ حکومت کی ترجیحات ملاحظہ کیجئے۔ سکیورٹی پر 34 ڈالر فی کس جبکہ تعلیم اور صحت پر 22 ڈالر فی کس خرچ کیے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی نظر میں تعلیم اور صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہے انکے خاندان دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور بہترین ہسپتالوں میں علاج کرواسکتے ہیں۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں تاجروں اور صنعتکاروں نے کارٹیل بنارکھے ہیں وہ گٹھ جوڑ کر کے عوام کو لوٹ رہے ہیں اگر تاجر وزیراعظم کی بجائے کوئی عوامی اور انقلابی وزیراعظم ہوتا تو عوامی مفاد میں ریاست کی طاقت کو استعمال کرکے کارٹیل مافیا کو میاں والی اور مچھ جیل میں بند کرتا وہ ایک ہفتہ کے بعد ہی ضروری اشیاء مناسب قیمت پر فروخت کرنے پر آمادہ ہوجاتے۔ تاجر اور صنعتکار بھٹو کی نیشنلائزیشن کو کوستے رہتے ہیں۔ بھٹو محب الوطن عوامی رہنما تھے ان کو ادراک تھا کہ معاشی اجارہ داریاں عوام کے استحصال کا سبب بنتی ہیں۔ آج اگر شوگر، آٹا، سیمنٹ ملز حکومتی کنٹرول میں بھی ہوتیں تو کارٹیل مافیا کبھی ناجائز منافع خوری کے قابل ہی نہ ہوتا۔جولائی کے مہینے میں صارفین کو بجلی کے جو بل ملے ہیں وہ اسقدر زیادہ ہیں کہ ہر گھر کا بجٹ شدید متاثر ہوا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں مست ہیں ۔ عمران خان کا سونامی اور طاہر القادری کا انقلاب ان کا نشہ اُتار دے گا اگر پاکستان کے فلاحی اور رفاہی ادارے انسانیت کی خدمت نہ کررہے ہوتے تو بھوکے ننگے انسان تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مجرم اور بدمعاش اشرافیہ سے انتقام لے چکے ہوتے۔