روزہ .... برائیوں اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے ڈھال
حکیم محمد سعید شہید
رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے اور نہ شور و ہنگامے کرے اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑائی پر آمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزہ دارہوں (بھلا میں کس طرح گالی دے سکتا ہوں اور لڑسکتا ہوں)(بخاری)۔
جہاد زندگانی میں ڈھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دشمن کے حملوں کا دفع کیا جا سکے ۔رسول اکرم نے روزے کو ڈھال قرار دیا ہے ایک روزہ دار بھوک پیاس کی شدت پر صبر کے شہوات اور خواہشات پر قابو پانے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے شیطانی حملوں کا دفاع بڑی کامیابی کے ساتھ کرتا ہے ۔
یہ حملے کیا ہوتے ہیں اور کن صورتوں سے ہوتے ہیں ہمیں اس سلسلے میں رسول اللہ نے متنبہ فرما دیا ہے کہ روزے کی حالت میں اکثرو بیشتر ہمیں آزمائشی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے ۔قدم قدم پر لغزش کے امکانات موجود ہوتے ہیں ۔
بھوک اور پیاس کا اثرعام مزاجوں پر غصے ،اشتعال اور الجھن کی صورت میں ہوتا ہے بعض لوگوں میں کسل، نیند کے غلبے اور اخلاقی کمزوری اور جُمودِ عملی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم جن مادی خواہشات کو اللہ کے حکم سے جب مغلوب کرنے کی جِدوجُہد میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ اپنی تکمیل کی دوسری راہوں کی تلاش میں مصرف ہو جاتی ہیں یہی موقع ہمارے صبر و ضبط کے امتحان اور ہمارے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے ۔اگر اس وقت ہم اپنی پوری قوت ایمانی کے ساتھ سر اُٹھانے والے نفس کو کچل نہ دیں تو ہمارا سارا دن ،فتنہ و فساد ،لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ کے علاوہ طرح طرح کی بد دیانتی ،خیانت ،تُرش رُوی،تلخ کلامی،لوگوں پر ظلم و ستم اور انکی حق تلفی میں گزرے گا ہمیں اس وقت سمجھ لینا چاہیے کہ خواہشات اور ایمان کی معرِ کہ آرائی میں ہماری کمزور قوتِ ارادی شکست سے دوچارہو رہی ہے فوری طور پر اپنے دفاع کیلئے ڈھال استعمال کرنی چاہیے اور وہ ڈھال روزہ ہے اسکا خیال ذہن میں بار بار تازہ کرنا چاہیے کہ ماحول و محرکات خواہ جو کچھ بھی ہوں ہم نے تو اللہ کیلئے روزہ رکھا ہے ہمیں اپنے شکم ومعدہ ہی کو نہیں روکنا ہے ،زبان اور ہاتھ کو بھی روکنا ہے ،مزاج اور دل کو قابو میں رکھنا ہے ،اسے اشتعال اور غصے کے حملے سے بچانا ہے ،کھانے پینے کے موقوف ہونے کا جواثر جھنجھلاہت کی صورت میں پیدا ہوا ہے وہ منفی ہے ہمیں اسے عجز و انکسار اور صبر و سکوت میں بدلنا ہے اسی کا نام روزہ ہے ۔اسی کا نام اخلاق و عمل کی اچھائی ہے اسی کا نام کردار کی فتح ہے۔
بسا اوقات ہم اپنے نفس کے خلاف اس ڈھال کو استعمال نہیں کرتے اور طرح طرح کی بد اخلاقی اور بد مزاجی کا شرمناک اظہار کرنے لگتے ہیں اسکے کچھ مادی اسباب بھی ہوتے ہیں۔
در اصل ہم رمضان میں اپنے کھانے پینے کا جو نظام رکھتے ہیں اسکے بارے میں کبھی یہ غور نہیں کرتے کہ وہ روزے کے مقاصد سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا روزے کو خراب کرنے والی جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے بڑی حد تک اس نقصان دہ نظام کو بھی ان میں دخل ہے مثلاً افطار اور اسکے بعد بہ کثرت کھانا،حد درجہ مرغن اور لذیذ غذا کثیر مقدار میں تا سحر کھانا،ترا ویح کے بعد تا دیر سگریٹ ،چائے اور پان کھا کر دن بھر کی پابندی کی تلافی کرنا اور پھر سحری کے وقت تک نیند کے مزے لینا یہ ایک ایسا طریق عمل ہے جس سے صبح کی بعد دن بھر معدے میں گرانی،طبیعت میں انقباض ،مزاج میں سستی اور کاہلی کا پیدا ہونا اور منافی اخلاق و رجحانات کا پیدا ہو جانا یقینی ہے حالانکہ روزے کا مقصد جسم کو زیادہ سے زیادہ مادی آلائشوں سے پاک کر کے روحانی اور اخلاقی برتری اور رفعت کی منزل کے قریب لانا ہے ۔
ہمیں اس مقصد کی تکمیل کیلئے کھانے پینے اور دوسرے تمام معمولات میں تبدیلی کرنی چاہیے اگر ہم افطار صرف کھجور اور کسی ہلکے مشروب سے کریں اور مختصر سادہ ، ہلکی غذا استعمال کریں ،سحری میں بھی صرف ایک پیالی(پیالہ نہیں )دودھ پر اکتفا کریں تو صبح ہماری طبیعت میں انبساط بدن میں روانی اور چستی،فکروعمل کیلئے مکمل آمادگی پیدا ہوگی اور برائیوں کے خلاف باطنی قوت مدافعت بڑھ جائے گی ،مزاج میں شگفتگی اور شعور میں لطافت پیدا ہوگی،حسن عمل اور حسن اخلاق کا رجحان غالب رہے گا ،ذکر و تلاوت دوسروں کی مدد اور اپنے دیگر تمام فرائض ہم بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں گے۔طرح طرح کے روحانی تجربات ہمارے نفس و مزاج کو نکھار دیں گے،روزے کی تقدس و حرمت ہمارے شعور میں اس وقت پیوست ہوگی جب ہم احکام الہیہ کی تعمیل مستعدی سے کریں اور کثرت طعام ،کثرت کلام اور کثرت منام سے بچنے کا اہتمام کریں۔اس وقت ہمیں اندازہ ہوگا کہ روزہ واقعی ایک ڈھال ہے برائیوں سے بھی بچنے کیلئے اور عذاب جہنم سے بھی بچنے کیلئے ۔