آجکل میڈیا پر ایک آواز برابر ہماری سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے کہ تعلیم کو ووٹ دو، تعلیم عام کرو، تعلیم کا بجٹ زیادہ کرو۔ الیکشن سے پہلے ٹی وی پر ایک کمپین چلائی گئی کہ تعلیم کو ووٹ کون دے گا۔ بڑے بڑے سیاستدانوں کو صندوقچیوں میں تعلیم کے حق میں ووٹ ڈالتے دکھایا گیا۔ یہی عمل دن میں کئی بار دکھایا جاتا تھا۔ تعلیم کو ووٹ ڈالنا اور تعلیم کے حق میں لچھے دار تقاریر کرنا اور تعلیم کے لئے عملی طور پر کچھ کرنا دو الگ الگ عمل ہیں۔ تعلیم کے حق میں ہم کسی مکئی کے بُھٹے بھوننے والے شخص یا کسی سکول کے مالی سے ووٹ لے لیں تو وہ بھی تعلیم ہی کے حق میں ووٹ دے گا۔ ہماری گلی میں سبزی فروش دو بھائی روزانہ اپنی تازہ سبزیوں کے فضائل بیان کرتے ہوئے آتے ہیں۔ میں نے بڑے بھائی سے پوچھا کہ تم اپنے چھوٹے بھائی کو سکول کیوں نہیں بھیجتے تو اس نے جواب دیا کہ جی تو میرا بھی چاہتا ہے کہ میرا بھائی بھی تعلیم حاصل کرے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ گھر میں بھوک بھنگڑا ڈال رہی ہے تو میں مجبوراً چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے آتا ہوں، پیٹ کا تنور خوراک اور غذا کا ایندھن مانگتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے نظامِ تعلیم کا نظارہ کرنا ہو تو کسی بھی چوک پر کھڑے ہو کر دائیں بائیں نظریں گھمائیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے مختلف نعرے داخلہ، پڑھائی، دہرائی، ٹیسٹ سیشن، انٹری ٹیسٹ کی تیاری۔ ہر مرحلے پر الگ فیس انسان کی مت مارنے کے لئے کافی ہے۔ غریب کا تعلیم پر کیا حق رہ جاتا ہے، جب ہر سمیسٹر پر لاکھوں میں فیس لی جائے گی۔ ہمارا تعلیمی نظام بولی کا نظام بن چکا ہے جو زیادہ بولی لگائے گا، ڈگریاں اس کے گھر کی باندی بن جائیں گی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہم نے نظامِ تعلیم کو آسان نہیں رہنے دیا۔ جب اسلم کولسری صاحب نے کہا تھا ....
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
تو وہ سستا زمانہ تھا کچھ زیور بیچ کر تعلیم مکمل ہو جایا کرتی تھی اب تو گھر بیچ کر بھی بچوں کی تعلیم مکمل ہوتی نظر نہیں آتی۔ لاہور میں ایسے بڑے بڑے سکول ہیں جن کی شان ہی بھاری بھاری فیسیں لینا ہے ان سکولوں کے بچے بھی اتنے غیر سنجیدہ اور شرارتی ہیں کہ استاد آنسو بہاتے کلاسوں سے نکلتے ہیں۔ مالکان والدین سے جتنی فیسیں لیتے ہیں، اس حساب سے اساتذہ کی تنخواہیں ”تن کھاتیں“ ہیں۔ بچوں کی ذرا ذرا کی شکایات پر اساتذہ والدین اور انتظامیہ کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک استاد نے از راہِ تفنن جملہ کہا ”یار! ہم پڑھانے کی تنخواہ نہیں لیتے، بچوں، والدین اور انتظامیہ سے بے عزتی کرانے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ انتظامیہ والدین سے اتنا خوف کھاتی ہے کہ وہ ان بچوں کی ہر غلط ملط شکایت پر استادوں پر التہابی نگاہ ڈالتی ہے۔ ہم اپنے اساتذہ کی اتنی عزت کرتے تھے کہ استاد کی سائیکل دیکھ کر دوڑ پڑتے تھے کہ ان کی سائیکل پکڑنے کا اعزاز حاصل ہو جائے، وہ استاد بھی والدین کی طرح ہمدرد اور شفیق ہوتے تھے۔ ہمیں رمضان شریف کے دنوں میں سحری کے وقت اُٹھا کر انگریزی کے Tenses سکھاتے تھے۔ نظامِ تعلیم کے حوالے سے دیکھیں کریکولم ونگ شعبہ نصاب کے ساتھ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ساتھ مدغم ہو گیا ہے۔ یہ صرف صوبہ پنجاب ہی میں ہے کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔ کریکولم ایک سپریم بادی بن چکی ہے۔ کریکولم ونگ میں قابل لوگ ہونے چاہئیں، یہ لوگ ماہر تعلیم ہوں، ان کا ریسرچ ورک ہو۔ درس و تدریس کا وسیع تجربہ ہو۔ ہمارے ہاں مختلف تجربات کئے جاتے ہیں۔ اگر پرانے سسٹم میں کوئی خرابی تھی تو اسے مزید بہتر کرنا چاہئے تھا، نہ کہ بالکل نیا تجربہ کیا جائے اور اس تجربے کے نتائج کا بھانڈا جب بیچ چوراہے میں پھوٹے تو لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں۔ ہندوستان کی مثال دینا کچھ اچھی بات نہیں لیکن وہاں 1962ءکا بورڈ چل رہا ہے۔ یہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کا کام ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار و خیالات کی روشنی میں مختلف کلاسوں کے لئے کورس مرتب کروائے، وہ ماہرین تعلیم سے رابطہ کرے۔ اب پبلشرز حضرات سے مسودات طلب کئے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں دفتری حضرات، پریس مینوں اور کاپی فروشوں نے بھی اپنے مصنفین دریافت کر کے مسودات بورڈ میں جمع کروائے تھے۔ پہلے کی طرح ناشرین کو کتابیں شائع کرنے کی ایلوکیشن ہونی چاہئے۔ اگر تخلیق کاروں کی پانی اہمیت ہے تو مرتبین کی بھی اپنی اہمیت ہے، ہر شخص کتاب مرتب نہیں کر سکتا۔ گذشتہ دنوں سکول کی ایک کتاب کے سلسلے میں جلوس نکالے گئے تھے حالانکہ کتاب مرتب کرنے سے قبل کسی بھی جگہ ماہرین تعلیم، اساتذہ کرام اور جلوس نکالنے والوں کو پیشگی بُلا کر مشورہ لیا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024