ذوق مطالعہ ایک عجیب کائنات ہے جس شخص نے اس ذائقہ کی حقیقت کو پا لیا وہ کسی اور ذوق کو کم تر ہی سمجھتا ہے ذوق کوتاہ دامنی کی شکایت کرتا ہے۔ دنیا بھر کی ادبی کتابوں میں ان کے مصنفین کا خون جگر اپنی کاوش بلند کی روشن تصویر پیش کرتا ہے اور بسا اوقات تو مصنف کی روح الفاظ پر غالب آ جاتی ہے اور الفاظ چاکر الفت کی طرح بے دام ہوئے مصنف کی عظمت فن کا اعلان کرتے ہیں۔ الفاظ اگرچہ غلام بے دام ہیں لیکن بھلا صلہ الفت کس ترازو میں تولا گیا ہے؟ اس لئے الفاظ بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں کیونکہ یہی نقیب حسن عبارت ہیں ادب تصنیف کرنے والی مخلوق ادب مرتب کرتی ہے کہیں نثر کو سلیقہ معنوی سے نقیب ضمیر بنایا جاتا ہے اور کہیں شعر کے سہارے سے شعور لا شعور کے سندیسے پہنچائے جاتے ہیں بہر حال مخلوق کے الفاظ ہی تو ضمیر مخلوق کے تابع ہوتے ہیں اسی لئے ہر نثرنگار اور شاعر کے الفاظ میں اس کی شخصیت جھلکتی ہے۔
لیکن جب خالق اکبر رب السمٰوات والارضین کے الفاظ ہدایت سماعت مخلوق پر اتر کر قلب وجود کا سفر اختیار کرتے ہیں تو اعضاءو جوارح کیف و کم اپنی تنگ دامانی کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہر لمحہ اور ہر جگہ اس کیفیت آفرین کلام پر مستانہ وار جھومتے ہوئے اپنی قلت برداشت کا اعتراف کرتی ہے۔ قرآن کا دعویٰ بجا ہے کہ اگر یہ کلام پہاڑوں پر نازل ہوتا تو پہاڑ خوف و ہیبت سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے۔
خالق اعظم اکبر کے کلام کے نزول کا کامل ترین اور راسخ ترین مقام تو قلب مصطفیٰ ہی قرار پایا کہ جہاں پر رب وحدہ لاشریک کی تجلیات پیہم اترتی ہیں اور وجود کائنات برصغیر و کبیر کو راہ ہدایت کیلئے نور عطا کرتی ہے۔ قرآن کی صداقت کا معیار و ضمانت حضور محمد مصطفیٰ کی ذات گرامی ہی ہو سکتی ہے۔ ذات رسول اقدس ہدایت الٰہی کا وہ مرکز ہیں جہاں پر قرآنی احکامات و تعلیمات کا کامل ترین خزانہ موجود ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول معظم کو قرآن سکھایا اور کائنات کیلئے تعلیمات رسول ہی کو کافی و شافی قرار دیا حضور کی بارگاہ علم نواز ہی سے وابستہ ہو کر قرآن فہمی کیلئے شعور کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ قرآن فہمی کیلئے غیر عرب لوگوں کو اپنی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قرآن کریم کے دنیا بھر کی بے شمار زبانوں میں تراجم کئے گئے ہیں۔
اردو زبان میں بھی تراجم قرآن کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے زبان و مکان کے بدلتے ہوئے تقاضے نئے تراجم کی ضرورت برقرار رکھتے ہیں لیکن کچھ ادبی ذوق کے حامل لوگ ان تراجم کو بلند ادب کی اصناف سے روشناس کرانے کا سلسلہ مبارکہ جاری رکھتے ہیں۔ ان ادیب لوگوں میں ایک ممتاز و منفرد صاحب ہمت ڈاکٹر طاہر مصطفی ہیں انہوں نے تاریخ اردو میں ایک منفرد باب کا اضافہ کیا ہے انہوں نے قرآن کریم کا اردو ترجمہ بغیر نقاط کے الفاظ سے کیا ہے اور بہت ہی کاوش سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے یہ ایک سعادت اور محبت کی کہانی ہے۔ شب و روز اس حسن خیر کے حصول کیلئے صرف کئے گئے ہیں۔
رابطہ ادب اسلامی نے اس کاوش منفرد کے اعتراف و تعارف کیلئے ایک ادبی نشست کا اہتمام جامعہ اشرفیہ کیا تھا۔ مولانا فضل الرحیم رابطہ ادب اسلامی کے پاکستان میں نمائندہ ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ کے اس ادبی کارنامے پر اس تقریب میں ملک کے نامور ادباءاور ناقدین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور طاہر مصطفی کی کاوش کو سراہا۔ واقعی یہ ایک بڑے حوصلے اور محنت کا کام ہے۔ مولانا فضل الرحیم نے بجا فرمایا کہ یہ علمی کام شائع کیا جانا ضروری ہے اور اس عظیم کام کو علماءمحققین کا ایک بورڈ مزید علمی حوالوں سے ایک ایسا علمی وثیقہ بنا کر مزین کر دے کہ یہ علمی کام آنے والے طلباءاور علماءکیلئے ایک علمی سنگ میل بن سکے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024