زندگی
جب عدم کو زندگانی جائے گی
ساتھ کب د±نیا فانی جائے گی
ہم کہاں ڈھونڈیں گے جانے کس طرف
ر±وٹھ کر ہم سے جوانی جائے گی
جس طرف بھی تیرا افسانہ گیا
ساتھ میری بھی کہانی جائے گی
ہم جفا کے دور میں حرفِ وفا
کب ہماری بات مانی جائے گی
جس طرف دامن ترا لہرا گیا
ساتھ موجِ ارغوانی جائے گی
کرب کے دریا سے کب نکلوں گا مَیں
آنسوو¿ں کی کب روانی جائے گی
ک±چھ تو ہو گا اِلتفاتِ راز دار
دو دلوں میں اب کے ٹھانی جائے گی
جعفری جس دم وہ ا±ٹھّے ر±وٹھ کر
زندگی کی شب سہانی جائے گی
( ڈاکٹر مقصود جعفری)