ذوالفقار علی بھٹو اور ہنری کسنجر کی یا د داشتیں

Jan 12, 2022

 سابق امریکی وزیرخارجہ نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کی وجہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور چالاکی ہوشیاری قرار دیتے ہوتے ہوئے کسی کو خاطر میں نہ لانا بھی ایک وجہ بیان کی ہے بالکل ایسے جب بھٹو نے راجہ بازار راولپنڈی میں امریکی خط نما دھمکی کو عوام کے سامنے پیش کر دیا تھا جس میں امریکا سرکار نے بھٹو اور امریکی حکومت کے مابین جھگڑے کو بظاہرحل کر نے کا کہا تھا لیکن اندرونی طور پر بھٹو کی حکومت کو ختم کر نے اور پاکستان میں اسکے خلاف تحریک زیادہ زور شور سے کرنے کی طرف پورا زور لگا دیا تھا۔ ایسے ہی اٹھائیس اپریل انیس سو ستتر کواس سر پھرے اپنی ذات اور جان سے بے نیاز شخص بھٹو نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہا تھا کہ ،،پارٹی از ناٹ اوور ، اور جمی کارٹر مردہ باد،،اور کسی تیسری دنیا کے لیڈر نے امریکا کو سفید ہاتھی قرار دینے کی جسارت کیا کی ، اس بھٹو کو مغرور مکاربلکہ غدارقاتل کے القابات سے مطعون کروایا گیا اسکے تمام موقع پرست ساتھی طویل عمر گزارنے کی خواہش میں تاریخ کے صفحوں سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اس کو تاریخ کا یہ بے رحم سبق یاد تھا کہ کہ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے سقوط ڈھاکہ پر وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت کے حصول کی ضرورت پر مر مٹاکہ اس کار جہاں میںکسی کو کوئی معافی نہیں، اخلاقیات کے باوجود انبیاء کرام کو میدان جنگ میں لڑ کر طاقت کا لوہا منوانا پڑا۔ طاقت ہی ہر چیز کا منبع ہوتی ہے۔ اپنی یاداشتوں میںامریکی وزیر خارجہ نے بھٹو کو ذہین ، فطین، باریک بین ، اور حوصلہ مند خوبصورت دلکش شخص قرار دیا ہے جس میں حس لطافت بھی بدرجہ اتم موجود تھی اور جو فصیح وبلیغ اور شعلہ بیان مقرر تھا۔ جس نے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے بحران میں پاکستان کو بچانے کیلئے ہندو سیاستدانوںکا مقابلہ کیا تھا، کسنجر کے اپنے الفاظ میں،،بھٹو اس وقت چین اور پاکستان کی دوستی کامعمار ثابت ہوا، جب امریکا چین کا دشمن تھا۔ تمام عمر امریکی حکومت ا سکی جذباتی شعلہ بیانی اور انیٹی اسیٹبلشمنٹ بیانات پر شا کی اور نالاں رہی لیکن میں نے اسے شاندار ،دلکش ا ور عالمی سطح کے حامل خیالات والا لیڈر پایا۔ 
آگے لکھتے ہیں:بے شک وہ بعد ازاں اکہتر کے بعدبہت زیادہ اعتماد اورہو شیاری و چالاکی کا شکار ہو چلاتھا لیکن اپنی قوم کو اسکی سالمیت کے سب سے بڑے خطرے اور المناک لمحات میں جب اسکی قوم کو اسکی شدید ترین ضرورت تھی یہ بھٹو ہی تھا جس نے پاکستان کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔بعد ازاں بہت زیادہ غرور کی وجہ سے وہ زوال کا شکار ہوا۔ لیکن اسکی جرأت اور تگ ودو کی بدولت جو اس نے انیس سو اکہترمیں پاکستان کو مکمل تباہ ہونے، ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کیلئے کی ،کے باوجود اسکا اپنی قوم کے ہاتھوں ایسا المناک انجام نہیں ہونا چاہئے تھا جو اسکے جذباتی ہموطنوں نے اسکے ساتھ کیا اور اسکی قوم کی نرم دل و نرم خورکھنے والی قوم کی شہرت کو گہنا کر رکھ دیا۔پانچ جنوری انیسو اٹھائیس کو پیدا ہونے والے بھٹو کو پہلے دن سے ہی بقول اسکے سوانح نگار سٹینلے والپرٹ کے خیال میں جا گزیں تھا کہ اسکی قسمت میں ہی کوئی تاریخی کام کرنا ہے، شائد اسی لئے جس بھٹو کومحترم کسنجر غرور ، خوداعتمادی اور چالاکی ، ہوشیاری کا منبع قرار دیتے ہیں شائد انہی خصوصیات کی وجہ سے انہوں نے بڑی طاقتوں بشمول امریکا کے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کیا اور اسکی سزا انہی طاقتوں نے بھٹوکو انکی دھمکیوں کو در خور اعتنا نہ سمجھنے پر اور پاکستان کو ہر قیمت پر ایٹمی پاکستان بنانے چین کے ساتھ تعلقات، اسلامی بلاک قائم کرنے پر عبرت کی مثال بنانے کی کامیاب کوشش کی اور کروڑوں عوام کے ہیرو بھٹو کو سر دار ، سرعام جیلوں ، عدالتوں میں گھسیٹتے ہوئے سوئے مقتل لے گئے۔ پانچ جنوری کو اس حریت پسند لیڈر کو یاد کرنے کا دن ہے جو اس قوم کیلئے تاریک راہوں میں مار دیا گیا اور پھر اسکی بیٹی بے نظیر بھی استعماری سازشیوں کے ہاتھوں مردانہ وار لڑتی ہوی شہید ہوئیںکہ جان دینا آسان نہیں ہوا کرتا۔ 
قارئین،ان باتوں کے لکھنے کا مطلب مردہ گھڑے اکھاڑنا ہر گز نہیں صرف تاریخ کے صفحات سے ان اپنے ہیروز کو ضرور عوام تک پہنچانا ہے جنہوں نے صرف اور صرف قومی مفاد کیلئے جانوں کو قربان کیا جیسا اس سے قبل جناب لیاقت علی خان نے سی آی اے کی ڈی کلاسیفیائڈ ڈاکومنٹس کے مطابق بھی امریکی صدر ٹرومین کے دور صدارت میں انکے احکام ماننے سے صاف صاف انکار کی جرأت رندانہ کی تھی اور بعد ازاں پر اسرار طور پر شہید کر دیئے گئے۔ آج تک ان جیسے محب وطن وزیراعظم کی موت کی وجوہات پر دبیز پردے پڑے ہیں لیکن صد سلام ایسے حریت پسندوں پر جنہوں نے صرف قومی مفاد کو سامنے رکھا اور جان تک اپنی قوم کیلئے قربان کر دی چاہے وہ مغروربے وقوف مکار اور ضرورت سے زیادہ پر اعتماد قرار دیئے گئے لیکن انہوں نے قومی خودمختاری پر آنچ نہ آنے دی اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ 

مزیدخبریں