پاکستان کی سفارتی کامیابی‘ بھارت سلامتی کونسل میں دو اہم کمیٹیوں کی سربراہی حاصل کرنے میں ناکام
بھرپور کوششوں کے باوجود بھارت سلامتی کونسل میں من پسند کمیٹیوں کی سربراہی حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا ۔ ذرائع کے مطابق 1373" کائونٹر ٹیررازم کمیٹی (سی ٹی سی) کی سربراہی بھی روایت سے ہٹ کر صرف ایک سال کیلئے دی گئی ہے۔ پہلے سال بھارت اس کمیٹی میں بھی صرف عام رکن کی حیثیت سے حصہ لے سکے گا۔جہاں فیصلہ سازی امریکہ اور دیگر مستقل ممبران پر منحصر ہے اور صدر کا کردار کم سے کم ہے۔ بھارت سلامتی کونسل میں افغانستان کے معاملے کو سنبھالنا چاہتا تھا لیکن اسکے کچھ قریبی دوستوں کو بھی یہ محسوس ہوا ہے کہ افغانستان کے امن عمل کو آگے بڑھانے میں ہندوستان کا کردار مثبت نہیں ہوگا۔ بھارت نے طاقتور "1267" القاعدہ / داعش پابندی کمیٹی اور "1540" ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کمیٹی کی سربراہی حاصل کرنے کیلئے زور دیا، لیکن ناکام رہا۔ القاعدہ اور داعش پابندیوں کی کمیٹی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے ہندوستان کے ایجنڈے سے آگاہ کونسل ممبروں کی اکثریت ہندوستان کو اس اہم کمیٹی کی سربراہی دینے کے مخالف تھی۔ ہندوستان نے نیویارک اور کونسل کے ممبروں کی دارالحکومتوں میں بھر پور لابنگ کی، لیکن وہ ان کو راضی کرنے میں ناکام رہا۔
بھارت کو کسی بھی کمیٹی کی سربراہی دینا بلے کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھانے کے مترادف ہوگا۔ افغان امن عمل کو افغان حکمران اپنا اقتدار بچانے اور طالبان کو قومی دھارے میں نہ لانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ایجنڈے کی تکمیل پرامن افغانستان سے نہیں ہو سکتی۔ افغان حکمرانوں نے کچھ اپنے اقتدار کی خاطر اور زیادہ بھارت کے ایماء پر امریکہ طالبان مذاکرات اور بعد امن اس معاہدے کی مخالفت کی اور اب تک انٹرا افغان مذاکرات تعطل کا شکار چلے آرہے ہیں۔ ایسے میں بھارت کو افغان امور کی کمیٹی کی سربراہی مل جاتی تو افغانستان میں امن کی بحالی کی منزل مزید دور جاتی۔ اس کا ٹھوس ثبوت ایف اے ٹی ایف میں بھارت کا رکن کی حیثیت سے پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہوناہے جس کے باعث پاکستان کو گرے لسٹ نہیں نکالا جارہا۔ حالانکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی تقریباً تمام شرائط من و عن پوری کردی ہیں۔ بھارت کو کائونٹر ٹیررازم کمیٹی کی سربراہی دینے کے بھی بدترین نتائج ہی برآمد ہونگے گو کہ بطور سربراہ کمیٹی بھی بھارت کے پاس فیصلہ سازی کے مکمل اختیار نہیں ہونگے لیکن اس کا سازشی ذہن پاکستان کیخلاف خبث‘ کینہ اور بغض سے کام لیتا رہے گا۔
بھارت نے القاعدہ اور داعش پابندیوں کی کمیٹی کی سربراہی حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ بھارت کے مذموم ایجنڈے سے آگاہ ممبران نے بھارت کو اس کمیٹی کی قیادت سے دور رکھ کر انسانیت دوست فیصلہ کیا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے مچھ میں گیارہ مزدوروں کو بے دردی سے شہید کرنے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی‘ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت داعش کی پشت پناہی کررہا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان مصدقہ اطلاعات پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے انٹیلی جنس کی رپورٹیں بھی میڈیا میں آچکی ہیں۔ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی سے دور رکھنا پاکستان کی بہترین سفارت کاری کا نتیجہ ہے جس سے منہ زور بھارتی لابنگ منہ کے بل گر گئی۔
بھارت کی پاکستان کیخلاف سازشوں‘ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بربریت اور سفاکیت کو دنیا کے سامنے لانے کیلئے وزارت خارجہ کے ایسے ہی دوٹوک فعال اور جرأت مندانہ کردار کی ضرورت ہے جس کا اظہار امریکہ کے بیان کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ممبئی حملوں میں ملوث پاکستان میں موجود افراد کے جرائم دہشت گردی کی مالی معاونت سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کو ممبئی حملے سمیت دہشتگرد حملوں میں ملوث افراد کو احتساب کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ اس پر وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے دوٹوک اور جرأت مندانہ جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ ممبئی حملوں کے کیس کو بھارت کی طرف سے گواہ نہ بھیج کر خراب کیا جارہا ہے۔ پاکستان اپنے قوانین پر مکمل عملدرآمد اور اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔ بہتر قانونی عمل کے ذریعے تحقیقات‘ مقدمات پر کارروائی اور سزا دیئے جانے کا عمل پاکستان کے قانونی نظام کے مؤخر ہونے کا مظہر ہے۔ پاکستان کا قانونی نظام بیرونی عناصر یا دبائو کے بغیر آزادی سے کام کرتا ہے۔ امریکہ اپنے تحفظات دہشت گردی کی بھارتی منصوبہ بندی‘ فروغ‘ مالی معاونت کیلئے رکھے جس کے پہلے ہی نمایاں‘ ناقابل تردید ثبوت فراہم کئے جا چکے ہیں۔ ان پر امریکہ کی طرف سے کیوں نوٹس نہیں لیا جاتا۔
سانحہ مچھ میں بھارت کے ملوث ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان کے شہر تربت میں دھماکے سے چھ افراد زخمی ہو گئے۔ بلوچستان اور وزیرستان میں آئے روز دہشت گردی ہوتی رہتی ہے۔ ان واقعات کو مودی اور اسکے قومی سلامتی کے مشیر کے بیانات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں دونوں نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں تیزی کا بدلہ بلوچستان میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت بدستور جاری ہے جبکہ عالمی ادارے بھارت کے مظالم کو بے نقاب کررہے ہیں اور کشمیر کو بھارت کا حصہ ماننے پر تیار نہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنے تازہ ترین نقشوں میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے مگر وہ مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے۔ عالمی اداروں اور طاقتوں کو بھارتی شرانگیزیوں کا ادراک ہے تو اس کیخلاف کارروائی بھی کریں۔ آخر کشمیریوں کو ان کا حق کب اور کیسے ملے گا؟ جبکہ اب تو پوری دنیا میں یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024