منگل‘ 27؍ جمادی الاوّل 1442ھ‘ 12؍ جنوری 2021ء
اپوزیشن میں ہمت ہے تو راولپنڈی آکر دکھائے: شیخ رشید کا چیلنج
فی الحال تو اس کا جواب فوری طور پر مولانا غفور حیدری نے دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شیخ رشید تیار رہیں 19 جنوری کو ہم پنڈی آرہے ہیں۔ اب یہ تو مکمل طور پر مولا جٹ اور نوری نت کے ڈائیلاگ والا فلمی سین لگ رہا ہے۔ اس میں باہمی دنگا فساد کی بُو بھی آرہی ہے۔ صاف پتہ چل رہا ہے کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ سو اب اس آگ سے اپنا گھر جلے یا مخالف کا کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں، مخالفت کی آگ نے افہام و تفہیم کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ اس فساد کا فائدہ صرف ان لوگوں کو ہوگا جو اس سرد موسم میں لگنے والی آگ سے ہاتھ تاپتے نظر آئیں گے۔ اختلافات کی خلیج کو پاٹنا ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے کہ وہ امن و سکون کی گنجائش نکالے۔ اسی بات اپوزیشن کی تو وہ پہلے ہی لڑنے بھڑنے کو تیار ہوتی ہے۔ شیخ رشید کسی طالب علم یونین کے لیڈر نہیں۔ ملک کے سکہ رائج الوقت وزیر داخلہ ہیں۔ وزیر ثقافت ہوتے تو پھر یہ فلمی ڈائیلاگ چل سکتے تھے اب نہیں چل سکتے۔ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں حکومت کیلئے کوئی مسئلہ پیدا ہونے نہ دیں مگر وہ تو خود فتنوں کو آفات کو دعوت دے رہے ہیں اگر وہ آگ بجھا نہیں سکتے تو کم از کم جلتی پر تیل بھی نہ چھڑکیں اس سے حکومت کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جنہیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔
میں آگ لگانے آیا ہوں
میں آگ لگا کر جائوں گا
والی پالیسی اس وقت کسی کیلئے بہتر نہیں۔
٭٭٭٭٭
انفولیب کے انکشاف کے بعد ’’را‘‘ کریمہ بلوچ کی سرپرستی سے انکار کرنے لگی
حکومت کی پالیسیوں سے اختلافات اپنی جگہ مگر حکومتی پالیسیوں کے نام پر ملک کیخلاف ہوجانا ملکی مفادات کو نقصان پہنچانا دنیا کے کسی بھی خطے میں قابل قبول نہیں۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کے کئی پڑھے لکھے قوم پرست نوجوان بھی ناراض ہوکر غلط راہ پر چل پڑے۔ انہیں راہ راست پر لایا جاسکتا ہے یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ ہمارے دشمن پڑوسی بھارت نے ہمیشہ قوم پرستی کی آڑ میں ہمارے بعض قوم پرستوں کو غلط راہ پر ڈالا ہے۔ کریمہ بلوچ گزشتہ دنوں وطن سے دور دیار غیر میں انتقال کرگئیں۔ اب بھارت کی ’’را‘‘ کو جو حقیقت میں کریمہ بلوچ جیسے عناصر کی سرپرستی کرتی ہے۔ یورپی یونین کی ’’ڈس انفولیب‘‘ کے انکشافات کے بعد پریشان ہے کیونکہ انفولیب نے تمام غیرممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے تعاون سے چلنے والی تنظیموں کے پاکستان مخالف نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ ایک یورپی تنظیم ہے پاکستانی نہیں اب را والے کہہ رہے ہیں ان کا کریمہ سے تعلق نہیں مگرحقائق کچھ اور ہیں۔ میڈیا پر تصاویر موجود ہیں جب رکھشا بندھن کے تہوار پر کریمہ بلوچ بھارتی وزیراعظم مودی کو راکھی باندھ رہی ہے کیا یہ ایک عام پاکستانی کیلئے ممکن ہے۔ اسی طرح کینیڈا میں اس کے شاہانہ اخراجات اور رہائش کا بندوبست بھی بھارت نے کیا تھا جس کے تمام ثبوت راکے پاس ہیں تاکہ بوقت ضرورت استعمال کرسکے۔ صرف یہی نہیں افغانستان اور یورپ میں تمام پاکستان مخالف گروپوں کو را کی سرپرستی حاصل ہے جو انہیں شراب ، شباب، اسلحہ، گولہ بارود اوربھاری رقوم فراہم کرتا ہے۔ یہ تو ڈس انفولیب کا کمال ہے جس نے ایسے تمام نیٹ ورکس کا جال بے نقاب کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭
بجلی کے شارٹ فال پر سوشل میڈیا کے دلچسپ تبصرے
ملک میں بجلی کا طویل بریک ڈائون کیا ہوا ہمارے سوشل میڈیا زرخیز ذہن بیدار ہوگئے۔بات صرف بیداری تک ہی رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یہ ذہنی شاطر جس طرح یکدم متحرک ہوجاتے ہیں وہ خاصہ خطرناک ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں افواہوں کا وہ بازار گرم ہوجاتا ہے کہ بازار مصر کی گرمی بھی اس کے آگے ماند پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ یہی کچھ گزشتہ روز بھی ہوا۔ رات کو اچانک آناً فاناً پورے ملک کی بجلی بند ہوگئی تو لوگ حیرت میں ڈوب گئے۔ صبح کے وقت جب بجلی آئی تو سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے جگمگانے لگے۔ہمارے ویلوں کی حالت دیکھیں صرف آدھ گھنٹے میں 5 کروڑ جملے بازیاں ہوئیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ کسی بڑی تخریب کاری کا شاخسانہ ہے۔ کوئی ملک پر حملے کی سازش کے تانے بانے بن رہا تھاکوئی ملک میں مارشل لاء کی خبر اڑا رہا تھا۔ کوئی اسے میاں نوازشریف دور کی مہربانی قرار دے رہا تھا کوئی کہہ رہا تھا وزیراعظم نے بجلی بند کرکے چیک کررہے تھے ۔ ایک تبصرہ جو لطیفہ نما ہے یہ بھی چل رہا ہے کہ پورے ملک کی بجلی بند کرکے ایٹم بم کوری چارج کیا جارہا تھا۔ کوئی بھارت کی طرف سے رات کے وقت جارحیت کی کہانی سنا رہا تھا۔ ان افواہوں کا زور اس وقت ہی کم ہوسکتا ہے جب حکومت خود اس بریک ڈائون کی وجوہات سے عوام کو آگاہ کرے ورنہ بولنے والوں کا منہ کون بند کرسکتا ہے۔ کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ بجلی کیوں اڑ گئی کیا حکومت بجلی بھی سٹور کررہی ہے تاکہ گرمیوں میں کام آئے۔
٭٭٭٭٭
بہار کا سلطانہ ڈاکو گرفتار
بھارت سے یہ خبر نہایت دلچسپ آئی ہے کہ وہاں بہار کے علاقے میں ایک مسلمان نوجوان محمد عرفان کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر کسی گائے کی ہتیا کا یا کسی ہندو ناری سے بیاہ کا الزام نہیں، نہ ہی وہ گوشت کا بیوپاری ہے۔ اس پر الزام یہ ہے کہ وہ امیروں کو لوٹ کر ان سے ملنے والے مال کا بڑا حصہ غریبوں میں بانٹ دیتا تھا۔ یہ نوجوان جو اپنے علاقہ میں خاصا مقبول ہے۔اب بہار میں ضلعی الیکشن بھی لڑنے کی تیاری کررہا تھا مگر افسوس کی بات ہے کہ وہ اڑنے سے پہلے ہی گرفتار ہوگیا۔ جب الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اس نوجوان کو بہار کے غریب لوگ مسیحا اور رابن ہڈ کہتے ہیں۔ اس کے مزید کئی ساتھی بھی دھر لئے گئے ہیں۔ یہ لوگ ہریانہ اور دہلی میں بھی وارداتیں کرتے اور ملنے والا مال غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ یہ نوجوان کم از کم ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہے جو غریبوں کو لوٹتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں بھارتی عدالتیں اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں۔ اگر یہ نوجوان ہندو ہوتا تو شاید شری کرشن کی بچپن میں مکھن چوری کی مناسبت سے اسے بری کردیا جاتا۔ مگر یہ نوجوان مسلمان ہے اس لئے کسی مسلمان پر رحم کھانا بھارتی عدالتوں کی روایات میں شامل نہیں۔