جہان حیرت اصل میںجہان پاکستان کی کہانی ہے وہی جد و جہد ،وہی زیر وبم ، وہی کامیابیاں ، وہی کامرانیاں، وہی سانحے، وہی مدو جزر پاکستان کے عام آدمی کی کہانی اصل میں پاکستان کی کہانی ہے جسے سابق انسپکٹر جنرل پولیس سردار محمد چوہدری نے اپنی خودنوشت کی صورت میں تحریر کیا ہے ، کئی عشروں کی کہانی کو ایک کتاب کی تنگنائے میں محدود کرنا در اصل دریا کو کوزے میں بند کرنے کیے مترادف ہے ۔
میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مجھے سردار محمد چوہدری کی قربت حاصل تھی لیکن میری ان سے پہلی ملاقات اور آخری ملاقات تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوئی ، سرگودھا میں اس وقت کے ڈی آئی جی احمد نسیم نے جو بعد میں خود بھی آئی جی بنے مجھے ایک تقریب میں مدعو کیا تھا وہ میرے راوین فیلو ہیں وہاں پولیس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کی ایک تقریب تھی جس کے بعد تقریریں بھی ہوئیں۔ کسی مقرر نے فوجی آمریت کے خلاف بات کی تو میں نے اپنی تقریر میں جوابی یلغار کرتے ہوئے نام نہادجمہوری نظام کو خوب لتاڑا، میری تقریر سے یہ تقریب الٹ پلٹ گئی کیونکہ مہمان خصوصی کے طور پر آئی جی پولیس سردار محمد چوہدری نے میری خوب خبر لی جمہوریت کے گن گائے یوں پہلی ملاقات نے میرے اور ان کے درمیان ذہنی فاصلے پیدا کر دئیے ان سے آخری ملاقات کئی ملاقاتوں کا ایک سلسلہ تھا وہ گھر میں بیمار پڑے تھے اور میں چند احباب کے ساتھ ہر شام کو ان کے ہاں پہنچ جاتا ، خوب بحث مباحثہ ہوتا ، ایک شام ہمارے ساتھی عبد الوہاب نے ان کے ہاتھ کی لکیریں دیکھیں اور کہا کہ آپ آٹھ دس روز مزید زندہ رہ سکتے ہیں ، چوہدری صاحب نے جواب میں کہا کہ آپ نے تو مجھے بہت لمبی مہلت دے دی ہے چلیں آج کی رات تو سکون کی نیند سوتا ہوں، تمام احباب کو سخت شرمندگی ہوئی کہ عبد الوہاب صاحب نے انہیں کیا کہہ دیا اور کیوں کہہ دیا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھااور الفاظ زبان سے ادا ہو چکے تھے۔ایک شب میں اکیلا ہی وہاں پہنچا پتہ چلا کہ ان کی طبیعت نڈھال ہے اور وہ بیڈ روم میں لیٹے ہیں ، انہوں نے مجھے وہیں بلا لیا تھوڑی دیر میںان کی بیٹی صائمہ بھی وہاں آگئی ،صائمہ ان کے لیے تھوڑا سا پپیتہ کاٹ کر لائی تھی ، چوہدری صاحب نے کہا میرا کوئی چیز کھانے کو دل نہیں کرتا میں نے کہا بیٹی بڑے چائو اور مان سے آپ کے لیے پپیتہ لائی ہے آپ اس کا دل رکھنے کے لیے چکھ تو لیں۔ چوہدری صاحب کے جسم میں جیسے اچانک بجلی کوند گئی وہ پھرتی سے بستر سے اٹھے کہنے لگے چلو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کھاتے ہیں، میں انہیں سہارا دے کر باہر لے آیا ، بیٹی کا لایا ہوا تحفہ انہوں نے چکھا نہیں بلکہ سارا کھا لیا۔بیٹی نے بھی سکون محسوس کیا، ہم نے اجازت لی اور اپنے اپنے گھر چلے گئے ، چوہدری صاحب بھی بیڈ روم میں جا کر بستر پر لیٹ گئے ، انہوں نے نحیف آواز میں ہمیں اللہ حافظ کہا ، یہ ہے آخری ملاقات کی دل لرزا دینے والی کہانی کیونکہ اسی رات انہیں کسی وقت دل کا دوڑا پڑا اور وہ ایک ایسے جہان کے سفر پر روانہ ہوگئے جس کا احاطہ کوئی انسانی ذہن نہیں کر سکتا ،یہ ایک ابدی زندگی کا سفر ہے ۔ ایک نیا جہان حیرت۔
چوہدری صاحب آخری سانس تک ایک دلیر اور باحوصلہ انسان تھے نو عمری میں انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا اپنے گائوں کی گلیوں میں قائد اعظم زندہ باد کے نعرے بلند کیے ، قیام پاکستان کے اعلان کے بعد انہیں ہجرت کا سفر اختیار کرنا پڑا ،ان کی ابتدائی زندگی انتہائی سخت تھی۔ تعلیم کے اخراجات پورا کرنے کے لیے وہ فارغ وقت میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ریلوے سٹیشن پر قلی کی طرح مزدوری کرتے رہے ، مستقل مزاجی نے ان کا ہاتھ تھاما اور وہ پولیس کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہوئے ، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نہ پولیس کی دوستی اچھی، نہ دشمنی ان سے دوری بہتر ہے ، لیکن جن لوگوں کا واسطہ چوہدری صاحب سے پڑا پھر وہ زندگی بھر ان کے رفیق سفر بن گئے کیونکہ چوہدری صاحب کے رویئے میں تھانیدارانہ رعونت کا کوئی عمل دخل نہ تھا وہ دوستی کرنا اور نبھانا جانتے تھے ۔ جمہوریت ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی وہ عوام کی حاکمیت کے نظریے کے علم بردار تھے ، ستر اور اکہتر میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا ۔ پاکستان دولخت ہوتے تو ہر ایک نے دیکھا لیکن چوہدری صاحب نے پاکستان کو دولخت کرنے والوں کو دیکھا ، ان کی سازشوں کی بو سونگھی ان کے ارادوں کو بھانپا اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں پر ان کی نظریں جمی رہتیں انہوںنے بھٹو کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی اور انجام بھی جنرل ضیا ء الحق کے اسلامی مارشل لاء سے وہ فوج کی حکمرانی کی وجہ سے نقاد بن گئے اور جہان حیرت کی ایک ایک سطر سے ان منافقتوں کا چہرہ چاک ہوتا ہے۔
مجھے خوشی ہے جہان حیرت کو میرے قریبی دوست اور بھائی محمد فیصل اپنے ادارے الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی اسٹریٹ اردو بازار سے شائع کر رہے ہیں،امید ہے کہ کتاب آپ کو پسند آئے گی اور ملک کی ہر لائبریری تک اس کی رسائی ممکن ہو گی۔ محمد فیصل کتابوں کی اشاعت میں اب پی ایچ ڈی کر چکے ہیں،اللہ ان کے کاروبار کو مزید ترقی دے اور وہ جہان حیرت کے ایڈیشن پر ایڈیشن چھاپ کر مجھے حیرت میں مبتلا رکھیں۔
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024