۱۔ بلوچستان کے قصبے مچھ میں پچھلے دنوں جو المناک واقعہ ہوا اس نے ساری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ گو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے ، اس سے پہلے بھی کئی جانسوز اور روح فرسا واقعات ہو چکے ہیں ، لیکن یہ اس اعتبار سے منفرد تھاکہ پہلی دفعہ انانیت اور مظلومیت بالمقابل آ کھڑی ہوئیں۔ اکثر حکمرانوں کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ جن سنہری اصولوں کے وہ پرچارک رہے ہوتے ہیں، وہی اصول ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے بعد سدِ راہ بن جاتے ہیں۔ کاسہ نہیں۔ حواری ، درباری ان کے اور عوام کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو وہ لوگوں کی ٹھیک طرح سے آواز سُن پاتے ہیں اور نہ پوری طرح سے ان کی حالتِ زار کا مشاہدہ کر سکتے ہیں! جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ، کم و بیش ہر حاکم اس تکلیف دہ حقیقت کا شکار رہا ہے۔ عمران خان اپنی کمزوریوں کے باوصف ایک ایماندار، دبنگ اور روشن ضمیر حاکم ہے لیکن جب بھی کوئی شخص سب طبل و علم کا مالک و مختار بن جاتا ہے تو کئی وسوسے توہمات دامنگیر ہو جاتے ہیں۔
۲۔ بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا ایک اہم خطہ ہے۔ کم آبادی کے باوصف رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا صوبہ ہے۔ سبی و ڈھاڑر سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ گوادر ، جیوانی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس میں پہاڑ ہیں۔ سمندر کی ایک طویل پٹی ہے۔ معدنیات ہیں ۔ اکثر زمین ناہموار اور سوختی ہے۔ میلوں تک ہریالی یا آبادی کا نشان تک نہیں ملتا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے سابق ضلع مکران کا رقبہ یورپ کے ملک ہالینڈ سے دوگنا بڑا تھا۔ ناگ سے لیکر جیوانی تک کا درمیانی فاصلہ قریباً پانچ سو میل بنتا تھا۔
۳۔ مچھ جس پر شہر کی صرف تہمت لگائی جا سکتی ہے، تقسیم سے قبل بہت اہمیت کا حامل تھا۔ سبی سے میدانی سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور بلوچستان کے پہاڑوں کا لامتناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سبی پاکستان کا گرم ترین شہر ہے۔ یہ سندھ اور بلوچستان میں حدِ فاصل ہے۔ اس کے متعلق کسی شاعر نے کہا تھا ،
سبی وڈھاڈر ساختی، دوزخ چرا پر داختی !
جس جانفشانی ، انتھک محنت ، مہارت اور ہمت سے انگریزوں نے زاہدان تک ریلوے لائنیں بچھائی ، اس کا اندازہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر آدمی اس علاقے میں سفر کرے ۔
دشوار گزار پہاڑوں کو کاٹ کر ، سنگلاخ چٹانوں کاسینہ چیر کر ، شوریدہ سر ندیوں کو پاٹ کر ، فرنگیوں نے مواصلاتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ مچھ کوئٹہ سے چالیس میل کے فاصلے پر سطح سمندر سے 3246 فٹ کی بلندی پر واقعہ ہے۔ یہاں پر بہت بڑا ریلوے یارڈ تھا۔ چڑھائی کی وجہ سے گاڑی کو دو اسٹیم انجن لگتے تھے۔ ایک بہت بارونق کلب تھا جس میں اینگلو انڈین اور انگریز ڈرائیور سرشام آ جاتے۔ دخترِ زر کے ساتھ راگ رنگ اور رقص و سُرور کی محفلیں سجتیں…تقسیم کے بعد یہ قصبہ ویران ہو گیا۔ اس کی شناخت صرف سنٹرل جیل رہ گئی جہاں ملک کے سرکش قیدیوں کو بھیج کر ان کا فر دماغ درست کیا جاتا ہے۔ میں نے اور ملک غلام مصطفی مرحوم نے یہاں پر تین ماہ تک سروس کے اوائل میں ، جیل ٹریننگ لی۔
اس وقت سرہندی صاحب جیل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ جیل کے پہلو میں ان کا جہازی بنگلہ تھا۔ مشقتی سارا دن اس کی نوک پلک سنوارتے رہتے۔ کیسا ہی اکھڑ قیدی کیوں نہ ہو، اس کے ضابطوں کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔ اپنے وقت کے دو بدنام قیدیوں ، چراغ بالی اور محمد خان ڈاکو کو یہاں رکھا گیا۔ چراغ بالی کا تعلق خوشاب سے تھا۔ اس نے گرفتار ہونے سے قبل سینکڑوں گھروں کے چراغ گُل کئے تھے۔ محمد خان ڈاکو کا تعلق تلہ گنگ سے تھا۔ ایک سیدھا سادا پنشن یافتہ فوجی جسے حالات نے بندوق اٹھانے پر مجبور کردیا۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ حکمران توہم پرست ہوتے ہیں۔ ایوب خان کے کان میں ڈال دیا گیا کہ نواب کالا باغ اس کے ذریعے خان کو مروا دے گا۔ دونوں اعوان تھے ، نتیجتاً سارے پنجاب کی پولیس کو اسے پکڑنے پر مامور کردیا گیا۔
۴۔ مچھ اور کوئٹہ کے درمیان کولپور اور آب گُم کے اسٹیشن ہیں۔ نجانے ملک کے مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی صاحب کو کیا سوجھی کہ انہوںنے اپنی آخری قابلِ ذکر کتاب کا نام ’’آب ِ گُم‘‘ رکھ دیا۔ آب گُم تو بنجر اورسنگلاخ علاقہ ہے لیکن کتاب پڑھ کر مصنف کیزرخیز ذہن کا اندازہ ہوتا ہے…یہ سب ’’کول مائننگ ایریا‘‘ ہیں۔
مچھ ، کول پور ، سنجدی، ڈیگاری ، وغیرہ ۔ جب میں 1969-70 ء میں AC سراوان (مستونگ) تھا تو ان میں سے اکثر علاقے میری عملداری میں آتے تھے۔ ہم نے کان کنوں کے تحفظ کے لیے جگہ جگہ لیویز پوسٹ کھڑی کر رکھی تھیں جہاں ہمہ وقت چوکس لیویز گارڈ ہر مشکوک شخص پر نگاہ رکھتے تھے۔ کان کنی ایک مشکل کام ہے۔ ہر شخص کے بس کا روگ نہیں۔ ساری مقامی آبادی یہ کام پسند نہیں کرتی۔ ساری لیبر فورس سوات ، کوہاٹ ، ہنگو ، ٹل ، بنوں وغیرہ سے آتی ہے۔ بلوچستان میں صرف ہزارہ قوم کے کچھ افراد یہ کام کرتے ہیں۔ یہ قبیلہ افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں آیا اوران کا تعلق ایک مخصوص مکتبہ فکر سے ہے۔
ملک میں جو مذہبی منافرت کی لہر اُٹھی ہے اسکا سب سے بڑا شکار یہ ہوئے ہیں۔ جس تسلسل ، تواتر اور منظم طریقے سے انہیں لُقمہ اجل بنایا جا رہا ہے ، اس سے ان کی نسل ختم ہونے کا احتمال بڑھتا جارہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلح کل لوگ ہیں، ہتھیار یہ نہیں اٹھا سکتے، مقابلہ کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں ہے، نہ جانے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ ہے! لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظام کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی جو لہر اٹھی ہے اس کا شکار صرف یہ نہیں ہوئے بہادر فوج کے بے شمار جوان بھی اپنے فرض پر قربان ہوگئے ہیں۔ آفیسرز اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں ہمارا ازلی دشمن ہندوستان اپنا مکروہ کردار ادا کررہا ہے۔ RAW نے ایک خطیر رقم مختص کررکھی ہے۔ لاجسٹک سپورٹ بھی ان کے ایجنٹ پہنچاتے ہیں۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38