موت سے کس کو رستگاری ہے۔ آج وہ کل ہماری باری ہے۔دْکھ موت کا نہیں ہوتا موت سب کو آنی ہے دْکھ تو بچھڑنے کا جْدا ہو جانے کا ہوتا ہے۔ ابھی تو رواداری کی صحافت کے میر کاروں اور دم توڑتی وضع داری کے بچے کْھچے عَلم بردار رؤف طاہر کی ناگہانی وفات کے سانحے سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ سنڈے کی صبح بڑے بھائی سعید آسی صاحب کے فیس بک پیج سے نوائے وقت کے مْقدم کالم نگار اور ستارہ شناش یٰسین وٹو کے سانحہ ارتحال کی جانکاہ اطلاع سے دل رْک سا گیا۔ پچھلے کچھ مہینوں سے نوائے وقت کے صفحات پر ہر منگل محترم یسین وٹو اور میرا کالم ایک دوسرے کے ساتھ یوں جْڑے ہوتے تھے جیسے دو کلاس فیلو ایک ہی بینچ پر ہر منگل کلاس میں حاضر ہوتے ہوں۔ ماضی بعید میں بھائی سعید آسی کے آفس میں اْن سے کچھ ملاقاتیں بھی رہیں ڈائریکٹ رابطے کے فقدان کے باوجود بھی اْن سے ہر ہفتے کا ایک باہمی ربط اور آشنائی موجود تھی جس سے اْنکے بچھڑ جانے کا صدمہ ایک فطری امر ہے۔بھائی روف طاہر تو ہمارے فیملی ممبر کی طرح تھے میرا اْن سے ابتدائی تعارف 80 کی دہائی میں ہوا جب والد محترم محمد اکرم کی وفات کے بعد بڑے بھائی سعید آسی مجھے پاک پتن سے اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور اکثر مجھے نوائے وقت میں اپنے ساتھ دفتر لے جاتے تھے سو مجھے بھی اْس دور کے جن نامور صحافیوں کے درمیان رہ کر تربیت کا شرف حاصل ہوا اْن میں رئوف طاہر سرفہرست تھے جو اکثر و بیشتر گھر بھی تشریف لاتے۔ لاہور میں تیس سالوں تک کرائے کی رہائش گاہوں کی خاک چھاننے کے بعد 1992ء میں بھائی سعید آسی نے اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران مختلف سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف فروخت کر کے اور بنک لون لیکر سبزہ زار میں اپنے گھر کی تعمیر شروع کی تو معلوم ہوا کہ مْلحق پلاٹ ہمیشہ ساتھ رہنے والے روف طاہر صاحب کا ہے جو بعدازاں اْنہوں نے سیل کر دیا تھا۔ مکرم اسد اللہ غالب کے ہمراہ پاک پتن میں ہمارے والد محمد اکرم سے ملنے بھی آتے رہے روف طاہر صاحب جب سعودیہ شفٹ ہونے کے بعد جدہ میں اْردو نیوز کے ایڈیٹر تھے میرا تب بھی اْن سے رابطہ رہا۔جب بھائی سعید آسی صاحب کی خصوصی دلچسپی پر میں نے نوائے وقت میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا تو اکثر روف طاہر صاحب تعریف کر کے میری حوصلہ افزائی اور راہنمائی فرماتے ابھی چند ماہ قبل ہی مجھے اپنے بیٹے احمد فرید اور بیٹی ارتقاء کے پنجاب کالج میں ایڈمشن پر کچھ ایشوز آئے تو میں نے روف طاہر صاحب کو کال کی کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک ہماری گفتگو رہی کیونکہ وہ لاہور یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم لیکچر بھی دیتے تھے اور اپنی مدد آپ کے تحت میں ایک سکول بھی چلا رہا ہوں اِس لیے ملک میں ایجوکیشن مسائل پر ہم دیر تک گفتگو کرتے رہے تب پہلی بار مجھے اْنہوں نے بتایا کہ اْن کا بچپن ہارون آباد میں گزرا ہے روُف طاہر صاحب اپنا ہر کالم مجھے واٹس ایپ کرتے وہ تحریر کے جادوگر تھے یوں لگتا جیسے سینکڑوں لفظ با ادب اْنکے آگے کھڑے ہوتے ہیں کہ سر ہمیں شرف بخشیئے۔ 2 جنوری کو اْنہوں نے اپنا آخری کالم ْ ْ وفا کا نام زندہ ہے۔ میں بھی زندہ ہوں ، ، مجھے سینڈ کیا جسے میں فوری نہ پڑھ سکا اور 4 جنوری کو اْنہیں رپلائے کر کے کالم پڑھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اْن کے سفر آخرت پر روانہ ہو جانے کی اطلاع بجلی بن کر گری لاشعوری طور پر اس دلخراش اطلاع کو تسلیم نہ کرنے کی ڈھارس کے لیے میں نے فوری بھائی سعید آسی کو کال کی تو اْن کے لہجے کی گرفتگی سے ہی مجھے زندگی کی سنگین نا پا ئیداری کا تلخ ادراک ہو گیا اور چند جملوں کی رسمی تصدیق کے بعد کال بند کرنی پڑ گئی۔ رات کو روف طاہر صاحب کی وفات پر اْن کے ہمدم دیرینہ مجیب الرحمن شامی صاحب کے تبصرے نے حقیقتاً رْلا دیا دوسرے دن مجیب الرحمن شامی صاحب کے اسسٹنٹ محمد فاروق کی کال آئی تو روف طاہر صاحب کی جْدائی کے صدمے سے میرے اپنے لہجے کے رِدھم برقرار نہ تھے جس پر محمد فاروق نے بتایا کہ رؤف طاہر صاحب ہمیشہ ہنستے مسکراتے شامی صاحب کے پاس آتے اور دفتر میں نظر آنے والے ہر فرد سے سلام دْعا کرتے وہ پانچوں وقت نماز کے سخت پابند تھے شامی صاحب کے ساتھ جتنے بھی اہم موضوع پر اْن کی گفتگو ہورہی ہوتی اذان سْنتے ہی جوتے جرابیں اْتارنے لگ جاتے چپل منگواتے اور وضو کر کے فوری نماز ادا کرتے۔۔ اْن کی وضع داری اور قناعت کا عالم عروج یہ تھا کہ میاں نواز شریف سے ذاتی قرابت داری اور مسلم لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود کبھی اپنے ذاتی حالات پر زبان نہ کھولی اور شامی صاحب کو میاں نواز شریف کو کہنا پڑا کہ روف طاہر کا خیال کریں جس کے بعد اِنہیں ریلوے میں ڈائریکٹر انفرمیشن کی تعیناتی ملی اور شامی صاحب نے ہی اْنہیں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کا جنرل سیکرٹری مقرر کرانے کے بعد روف طاہر صاحب کو لاہور یونیورسٹی میں لیکچرار کی ذمہ داری لیکر دی کیونکہ وہ خود تو اپنی زبان سے کبھی اپنی ذات کے لیے کچھ طلب ہی نہیں کرتے تھے۔
دنیا میں تبدیل ہوتے موجودہ ورلڈ آرڈر کے بعد دنیا جس تباہی و بربادی سے دو چار ہونے والی ہے اور عالمی طاقتوں کے اِس اِنسانی خونریزی کے کھیل کو شروع ہونے سے قبل ہی شاید خدا اِنسانوں کو ایک ایک کر کے اپنے پاس بْلائے چلا جا رہا ہے یوں لگتا ہے کہ ہم سب موت کے خوف سے اندھا دھند سرپٹ ڈوڑے چلے جا رہے ہیں اور موت کا فرشتہ ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے دوڑتے، دوڑتے جِسے موت کا فرشتہ دبوچ لیتا ہے وہ اس دوڑ سے باہر ہو جاتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024