نئے پاکستان میں نئی سیاست کی آنکھ مچولی

آصف علی زرداری اور میاں محمد نوازشریف بلاشبہ سیاست میں کامیاب قرار دیئے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اپنی پارٹی کو اپنے کمزور ہونے کے خدشے میں اپنی گرفت سے باہر نہیں جانے دیا اور ایک نے اپنے بیٹے کو اور دوسرے نے اپنی بیٹی کو مہارت سے یہ ورثہ منتقل کر دیا ہے۔ دراصل پاکستان میں عوام کی اکثریت کا عمومی مزاج نافرمانی کا ہے۔ گائوں کے چودھری سے لیکر سیاست کے چودھری تک سب عوام کی اس کمزوری کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ میڈیا میں ہماری ملکی سیاست کو خاندانی وراث بھی کہا جاتا ہے اور محبوبی حس کا ثمر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اسے شخصیت پرستی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ورثے میں ملنے والی سیاسی قوت کا گزشتہ چھ ماہ میں نئے سیاسی ’’قائدین‘‘ نے استعمال بھی شروع کر رکھا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے سیاستدانوں میں کسی حد تک اتنی خودداری ضرور تھی کہ وہ اولاد کی صورت میں سیاسی وارث بننے والوں کی تربیت کی جرأت کر بیٹھتے تھے۔ چنانچہ جب ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی ورثہ بینظیربھٹو کو منتقل ہونے لگا تو پارٹی کے بعض سینئر اور بزرگ لیڈروں نے اپنے تجربے اور سنیارٹی کو شو کرنا چاہا۔ اس پر محترمہ بینظیر بھٹو نے ایسی سیاست سے کام کیا کہ بیشتر انکلز یا تو پارٹی سے علیحدہ ہو گئے یا کھڈے لائن لگ گئے۔ اب البتہ یہ عجیب بات سامنے آرہی ہے کہ ملک کی اپوزیشن میں بیٹھنے والی دونوں اہم پارٹیوں یعنی پی پی پی اور (ن) لیگ کے بیشتر سیاسی انکل اپنی کم عمر قیادت کے سامنے دست بستہ رہتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال میں بلاول زرداری بھٹو کسی کو خاطر میں نہیں لائے۔ جوش خطابت میں ایسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جن سے بالواسطہ ملکی سلامتی کے ادارے بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز بھی سیاسی روزے رکھنے سے پہلے اسی انداز کو اپنائے ہوئے تھیں۔ جب آپ ایک الیکٹڈ وزیراعظم کو مسلسل سلیکٹڈ کے نام سے پکاریں گے تو یہ اشارے بالواسطہ وطن عزیز کے دفاعی اداروں کی طرف ہوتے ہیں اور اگر اس کا آئینی نوٹس لینے کی نوبت آگئی تو پھر ایک نیا پنڈورہ بکس کھل سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ملکوں کی ’’جمہوریت‘‘ میں ہی ایسا ممکن ہے کہ چالیس چالیس برس تک حکومت اور اپوزیشن میں رہنے والی بڑی جماعتوں کی قیادت صرف ایک باپ‘ اس کی اولاد اور پھراس کی اولاد کے اندر ہی رہے۔ ایسا صرف بادشاہت میں ممکن ہے اور اس دور میں تو بیشتر بادشاہتوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ سعودی عرب کی بادشاہت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس ملک میں سیاسی جماعتوں کی قیادت وراثتی فارمولے پر عمل کرکے‘ وہاں اجتماعی ذہانت کی بجائے شخصی ذہانت میدان میں ہوتی ہے اور عوام کے اصل دکھ اور درد اور مسائل حل کرنے کی بجائے بادشاہ کی سوچ رنگ دکھاتی ہے۔ لاہور میں ’’تبدیلی‘‘ کے دو منظر میٹرو بس سروس اورنج لائن ٹرین ہمارے سامنے ہیں۔ اربوں روپے خرچ ہو گئے اور شہر میں شہریوں کا آمدورفت اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پہلے سے زیادہ گھمبیر ہوگیا ہے۔ ان نام نہاد ’’میگا پروجیکٹوں‘‘ کی جگہ تمام اہم چوکوں پر فلائی اوور بنائے جاتے تو اب تک کے ٹوٹل خرچ کا شائد دسواں حصہ بھی خرچ نہ ہوتا اور 5 فیصد کی بجائے 100 فیصد آبادی کو سکھ ملتا۔ پیسہ سی پیک کا سہی مگر اس کا بہتر استعمال تو ممکن تھا۔ اسکی دیکھا دیکھی اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے بھی میٹرو بس کی تعمیر شروع کی اور اب تک تنقید کی زد میں ہے۔ اب پاکستان میں تحریک انصاف کی قیادت یعنی عمران خان کی حکومت ہے۔ انکی جماعت میں وراثت کے تسلسل کا خطرہ تو نہیں ہے اور وہ ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لیکر میدان میں آئے ہیں‘ لیکن انکی بعض باتیں بھی عوام کیلئے مایوسی کا سبب بن رہی ہی۔ اس میں شبہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بندوبستی معیشت جیسے اہم کام کا رسک لیکر بعض غیر مقبول فیصلہ کر رہی ہے‘ لیکن خان صاحب بعض خاص مشیران سے بالاتر ہوکر کب یہ سوچیں گے کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں پر کنٹرول کئے بغیر اور انہیں کم کئے بغیر وہ ملک میں صنعت و تجارت کی سرگرمیاں معمول پر نہیں لا سکتے۔ لنگرخانے‘ مسافرخانے اور ایسے دوسرے اقدامات ملک کے ایک فیصد طبقے کو بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ اپوزیشن کی پالیسی واضح ہے اسے پتہ ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر اگلے انتخابات میں عوام‘ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دینگے۔ نئے پاکستان کیلئے تحریک انصاف کے پاس وقت کم ہے۔ مارکیٹ کی بحالی اور لوگوں کی آمدن کیمطابق قیمتوں کا تعین نہ ہو سکا تو خطرات ہی خطرات ہیں۔ اس وقت ادارے بھی حکومت سے ہم آہنگ ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پٹرول پر ٹیکس کم کرکے اور کالاباغ ڈیم سمیت پن بجلی کے چھوٹے بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے میں تیزی دکھائے۔ ایسا نہ ہوا تو بظاہر نئی اپوزیشن قیادت خواہ وہ ورثے میں ہی اس مقام پر فائز ہوئی ہے‘ آئندہ انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔