نئی امریکہ اور ایران کشیدگی کے بعد دنیا میں تیسری عالمی جنگ کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ خطے کا امن خطرے میں ہے تو بہت سوں کو دنیا کی بقا مشکل نظر آ رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کیا‘ تمام مسلم دنیامیں امن ہے ہی نہیں تو امن کو خطرہ کیسے ہونا؟ افغانستان کا سب کو معلوم ہے۔ ایران اور ترکی بظاہر تو پر امن ہیں لیکن عملی طور پر دونوں ممالک کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ یمن میں القاعدہ ،اردن میں ’’دولت اسلامی‘‘، سومالیہ ،لیبیا ، شام اور مالی سے لیکر چاڈ میں انوال اور سوڈان میں کردفان( سوڈانی حکومت اور سوڈانی پیپلز لیبریشن موومنٹ کے درمیان جنگ) ۔ نائیجیریا، الجیریا، آزربائیجان سینیگال سمیت کوئی مسلمان ملک پر امن نہیں ہے ۔ اور اس وقت مشرق وسطیٰ فلیش پوائٹ بنا ہوا ہے۔ مسلم ممالک میںیہ تمام جنگیں اور باہمی تنازعات اپنی جگہ، میں یہ بات لکھ کر دے رہا ہوں کہ ایران اور امریکہ کے مابین کم از کم اگلے پچیس برس تک تو جنگ نہیں ہو سکتی ۔ اسکے بعد کا اندازہ اس وقت کے عالمی حالات دیکھ کر لگایا جائیگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ جنگ نہیں ہو سکتی تو یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اس سب میں کس کی ہار اور کس کی جیت ہوئی یا ہو گی؟
درصل یہ سب ایسی صورتحال ہے کہ اسمیں سب کی جیت ہی جیت ہو گی۔ سب سے پہلے امریکی صدر مسٹر ٹرمپ۔ امریکی صدر کے مواخذے کی تحریک جو امریکی میڈیا پر چھائی ہوئی تھی اور ٹرمپ کی الیکشن مہم کو شدید نقصان پہنچا رہی تھی موجودہ حالات میں پس پردہ چلی گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب امریکی صدر دعویٰ کرینگے کہ انہوں نے ایران کے دانت بھی کھٹے کر دیے اور امن بھی قائم رہا ۔ ان کی واہ واہ بھی ہوگی اور الیکشن مہم کو تقویت بھی ملے گی۔ امریکی ریاست کی بھی جیت ہو گی۔ پہلے پہل جنگ کا خطرہ اور ایران پر پابندیاں، پھر مذاکرات اور کوئی نیا معاہدہ۔ عین ممکن ہے کہ اس نئے معاہدے میں امریکہ اپنی شرائط کے ساتھ چاہ بہار کے منصوبے میں بھی شامل ہو جائے۔ سب سے اہم معاشی فوائد۔امریکہ کے پاس دنیا کو بیچنے کیلئے سب سے مہنگی اور وافر چیز اسلحہ ہے۔باوجود اس بات کے کہ آزاد ذرائع سے حاصل کردہ سیٹلائٹ تٖصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے فائر کردہ میزائل امریکی اڈے میں طیارے کھڑے کرنے کے ہینگروں پر لگے ہیں جو کہ ان تصاویر میں خالی نظر آ رہے ہیں لیکن بہر حال ایران نے امریکی اڈوں پر میزائل داغ کر ثابت کر دیا ہے کہ اسکے میزائل بہت خطرناک ہیں۔ اگر امریکی اڈے ان سے محفوظ نہیں تو عرب ممالک کی حیثیت ہی کیا ہے ؟
اب ایران مخالف عرب ممالک ان میزائلوں کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنی حفاظت کیلئے امریکہ وغیرہ سے میزائل شکن سسٹم بھی خریدیں گے اور دیگر اسلحہ بھی۔یہ عرب اور خلیجی ممالک ویسے بھی مغربی اور خاص طور پر امریکی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے 2016 میں خلیجی ممالک کو 33 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ امریکہ کی ’’ ڈیفنس سیکیورٹی کو آپریشن ایجنسی ‘‘ (DSCA) کیمطابق صرف 2017میں امریکہ نے اپنے اسلحے کی فروخت کے جو معاہدے کیے تھے ان میں کویت کے ساتھ 3266 ملین ڈالر M1A2، ٹینک،JDAM ، AMRAAM ,اپاچی ہیلی کاپڑ سپورٹ، انفراسٹرکچر وغیرہ) سعودی عرب کے ساتھ 5697 ملین ڈالر (رڈار، ٹریننگ، PTDS، چنوک ہیلی کاپٹر)، قطر کے ساتھ 700 ملین ڈالر (C-17کے انجن، لاجسٹک اکوئپمنٹ)، متحدہ عرب امارات کے ساتھ پانچ بلین ڈالر سے زائد ( پیٹرائٹ میزائل، اپاچی ہیلی کاپٹر) اور عراق کے ساتھ 1319 ملین ڈالر کے معاہدے شامل ہیں۔
پچھلے دو برسوں میں اس علاقے میں اسلحے کی خرید اری ذرا کم رہی تھی جو کہ حالیہ کشیدگی کے بعد خود بخود بڑھ جائیگی جیسے 2017 میں سعودی عر ب اور قطر میں ہونیوالی کشیدگی کے فوری بعد امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ 350 بلین ڈالر کی اسلحہ کی فروخت کی ڈیل کی تھی اور پھر اسکے ایک ماہ کے اندر اندر قطر کے ساتھ بھی ۱۲ بلین ڈالر کے F-15 لڑاکا طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کر لیا تھا ۔ (جاری)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024