چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک کے ائیر پورٹس تمام جرائم کی ڈیل کی جگہ بن گئے ہیں، مسافر زمین پر پڑے ہوتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، سب جانتے ہیں کہ مسافروں کے ساتھ سول ایوی ایشن والے کیا سلوک کرتے ہیں۔ ائیر پورٹس بہت خطرناک مقام بن چکے ہیں وہاں فارن کرنسی اور منشیات آ جا رہی ہیں۔ دنیا بھر کے جرائم کی ڈیل ائیر پورٹس پر ہوتی ہیں کوئی کسی کو روکنے والا نہیں ہے۔ ملک سے فارن کرنسی باہر جا رہی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے سول ایوی ایشن کی کارکردگی پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسمیں کچھ شک نہیں ہے کہ ائیر پورٹس پر صورتحال ویسی نہیں ہے جیسی ہونی چاہیے۔ حساس جگہ ہونے کی وجہ سے کارکردگی کا معیار بھی وہ نہیں ہے اور جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج تحفظات ظاہر کریں تو پیچھے کیا دلیل باقی رہتی ہے۔ فارن کرنسی کے حوالے سے ماضی میں کئی ایسے واقعات ہیں کہ انہیں دیکھ کر ایک پاکستانی کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ ایسے ایسے اعلیٰ لوگ اس میں شامل نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اوپر کی سطح کے لوگوں کا ایسے کاموں میں ملوث ہونا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ عدلیہ کا رویہ انتہائی محتاط نظر آتا ہے لیکن جب بات حد سے گذر جاتی ہے تو پھر مداخلت کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا ایسا بھی ہوا ہے کہ عدلیہ کے ایکشن کو مداخلت قرار دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادارے اپنا کام کرنے اور ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ کسی ملک کے ائیرپورٹس ہی غیر محفوظ ہو جائیں یا جرائم پیشہ افراد اتنے طاقتور ہو جائیں کہ وہ وہاں اپنی مرضی کی کارروائی کر سکیں تو عام جگہوں کی حالت کیا ہو گی۔ ایسے کیسز جب بھی سامنے آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر ہم کیا کر رہے ہیں۔ دو ہزار بیس میں جب دنیا کی ترقی کی رفتار انتہائی تیز ہو چکی ہے ہم بنیادی چیزوں سے ہی محروم نظر آتے ہیں۔ دنیا ترقی کے نئے سفر پر ہے اور ہم ابھی تک سمت کی تلاش میں ہیں۔ نہ ہمارے ہوائی اڈے محفوظ ہیں نہ ریلوے سٹیشن، نہ بسوں پر سفر کا کوئی پرسان حال ہے۔ آخر تمام ادارے کس طرف جا رہے ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی جائیں ائیر پورٹس انتہائی محفوظ اور عوام دوست نظر آتے ہیں چونکہ یہاں آپ دنیا سے جڑ رہے ہوتے ہیں دنیا کے ساتھ آپکا مقابلہ ہوتا ہے اس لیے ہر ملک اپنے ہوائی اڈوں کو انتہائی اہمیت دیتے ہوئے مسافروں کو تمام سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک کے ائیر پورٹس کو دیکھا جائے تو رقبے کے اعتبار سے ہمارے ائیر پورٹس کا کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں ہے۔ ہم اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں اس کے باوجود ہمارے انتظامی معاملات س حد تک بگڑے ہوئے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لینا پڑا ہے۔ چیف جسٹس نے جس طرف توجہ دلائی ہے وہ انتہائی خطرناک اور حساس معاملہ ہے۔ اگر ائیر پورٹس پر جرائم پیشہ افراد کا اس حد تک کنٹرول ہو جائے کہ فارن کرنسی اور منشیات کا آنا جانا معمول ہو جائے تو دنیا میں ہماری کیا حیثیت رہ جائے گی۔ کیا کبھی وسیع تناظر میں اس طرف دیکھا گیا ہے۔ بد قسمتی ہے کہ ہم دو ہزار بیس کا آغاز بھی ایسی بری خبروں اور واقعات کے ساتھ کر رہے ہیں۔ مسافروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، طیاروں کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پروازوں میں تاخیر ایسی معمول کی بات ہے کہ کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا، دبئی میٹرو کے سٹیشن ہمارے ائیر پورٹس سے زیادہ منظم، صاف اور جدید نظر آتے ہیں۔ انگلینڈ کے ریلوے اسٹیشنوں کو دیکھیں، وہاں کے عملے کو دیکھیں تو ہمیں اپنے ہوائی اڈوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ ہیتھرو ائیرپورٹ، دبئی ائیر پورٹ تو بہت ہی دور کی بات ہے ہمارے ائیرپورٹ تو ان کی ٹرینوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اور یہیں سے ہماری بدبختی اور معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم جمہوریت، جمہوریت اور جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ جن خطرناک جرائم کی طرف چیف جسٹس نے بات کی ہے اس بارے گذشتہ دس برس میں جو کچھ ہوا ہے اس کے اعدادوشمار انتہائی خطرناک ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے تیز ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔ پروازوں کے شیڈول ایسے اقدامات کیے گئے تو بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ پی آئی اے کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تو اس ائیر لائن میں اتنی جان ہے کہ اپنا مقام دوبارہ پیدا کر سکتی ہے۔ اس کے لیے کوئی بہت سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے۔ انتہائی سادہ فارمولا ہے کہ اس دور کے فیصلوں کو دیکھ لیں جب ہم کامیاب تھے انہی فیصلوں کی روشنی میں دوبارہ کام شروع کر دیں تو بہتری آ سکتی ہے۔ اپنے لوگوں کو نوازنے کے بجائے میرٹ پر فیصلے شروع کریں ایسا نہیں ہے کہ ہم نالائق ہیں، یا کام نہیں آتا اصل بات یہ ہے کہ لائق اور کام کرنے والوں کو آگے آنے نہیں دیتے کیونکہ ایسے لوگوں سے فیصلہ سازوں کو کوئی مفاد نہیں ہوتا اور اگر کوئی کام کا بندہ اوپر آ بھی جاتا ہے تو مافیا مل کر اس کا وہ حال کرتا ہے کہ دیگر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور توبہ کر لیتے ہیں ہمارے بہترین دماغ بیرونی دنیا میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہم مسلسل نالائقوں کو نوازنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ریاست کے اداروں میں انصاف کریں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ہم دیلھیں تو ان دنوں کئی ایسے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں جن میں براہ راست اداروں کی ناکامی کا ثبوت ملتا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر ریلوے کو دیکھیں تو اس کا بھی برا حال ہے لوگ بول بول اور لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں جتنے حادثات ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں لیکن کسی کو فرق نہیں پڑتا وزیر موصوف کی توجہ اپنی وزارت سے زیادہ سیاسی بیان بازی پر رہتی ہے جتنا وقت وہ ٹی وی پر گذارتے ہیں اس کا نصف بھی اپنی وزارت کو دیں تو عوام کی خدمت ہو سکتی ہے لیکن انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کتنا خوار ہو رہے ہیں انہیں زیادہ دلچسپی اپنے انٹرویوز اور خبروں میں رہنے اور سیاسی پیشگوئیوں میں ہے۔ عوام ریلوے اسٹیشنز پر خوار ہوتے رہیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جتنے بھی وزیر مشیر ہیں ان کے لیے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے ۔ وزراء کے لیے ٹی وی شوز میں مسلسل شرکت کے حوالے سے حکومت کو بہتر منصوبہ بندی ضرور کرنی چاہئے انہیں عوام نے ووٹ اس لئے دیا ہے کہ یہ روزانہ چار پانچ گھنٹے ٹی وی پر بیٹھے رہیں۔ کیا ہماری قوم کے وزراء کے لیے اپنے محکموں پر توجہ دینے کے بجائے ٹی وی پر بیٹھنا ضروری ہے، کیا ان کے وزیر رہنے کے لئے کارکردگی معیار ہے یا پھر سیاسی بیان بازی۔ خدارا اس طرف توجہ دیں اور عوام کو ریلیف دینے کی طرف آئیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024