ہفتہ‘ 5 ؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 12 ؍ جنوری 2019ء
سوئٹزر لینڈ: ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے پر جرمانہ
سوئٹزر لینڈ میں ایک مسلمان نوجوان فرحان نے سڑک پر مدت کا بچھڑا پرانا دوست اچانک ملنے پر وفور جذبات میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا دیا۔ دو چار پولیس والے بھی وہیں کھڑے تھے اُنہوں نے کہیں سُن رکھا تھا کہ یہ کلمہ، مسلمان حملہ کرتے وقت بلند کرتے ہیں، بس اللہ اکبر سنتے ہی اُنکے ہاتھ پائوں پھول گئے اور ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ اُنہوں نے فرحان کو جکڑ لیا اور دھمکی دی کہ تم نے اللہ اکبر کہہ کردہشت پھیلائی ہے۔ فرحان لاکھ کہتا رہا کہ میں تو یہیں کا جم پل ہوں، میں بھی آپ جتنا ہی امن و قانون پسند سوئس شہری ہوں۔ نیز اس کلمہ کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنا درست نہیں۔ یہ کلمہ اظہار مسرت کیلئے بلند کیا جاتا ہے مگر اُنہوں نے ا یک نہ سُنی اور دھمکی دی کہ جرمانہ (مساوی 30 ہزارروپے) دو، ورنہ جیل چلو۔ سبحان اللہ! 15 سو سال سے اس ایک کلمہ کی کفار کے دلوں پر ہیبت ہے۔ جب عساکر اسلام یہ کلمہ بلند کرتے تھے تو پہاڑوں کے دل دہل جاتے تھے، بڑے بڑے لشکر جرار بغیر ہتھیار اٹھائے، راہ فرار اختیار کر جاتے! یہ اللہ اکبر کی برکت تھی کہ مسلمانوں نے سپین، پرتگال ، جنوبی فرانس اور صقلیہ (سسلی) پر صدیوں حکومت کی اور تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اسی کلمہ کے پھریرے اُڑاتے ترک عساکر یورپ کے عین قلب میں وی آنا کی فصیلوں پر دستک دے رہے ہیں۔ افسوس کہ جلالی روح رکھنے والے وہ مسلمان نہ رہے جن کے بارے میں علامہ مرحوم فرما گئے ہیں…؎
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
٭٭٭٭
پاکستان بھر میں 4356 بوگس ہائوسنگ سوسائٹیوں کا انکشاف
بوگس ہائوسنگ سوسائٹیوںکا دوسرا مطلب ہے، ٹھگوں اور لٹیروں کے جتھے۔ ایف آئی اے نے انکی ’’مردم‘‘ شماری کر کے بظاہر بڑا تیر مارا ہے۔ اگر یہ سب ٹھگ پکڑ کر، نیب کے کٹہرے میں کھڑے کئے گئے ہوتے تو ہم اسے یقیناً کارنامہ گردانتے۔ گن لینا کوئی کمال نہیں کمال یہ ہے کہ ان سے لوٹا ہوا ایک ایک پیسہ عوام کو واپس دلایا جائے اور اُنہیں پابند سلاسل کرنے کے علاوہ اُنکے ماتھوں پر لفظ ’’ٹھگ‘‘ کھدوایا جائے تاکہ مارے شرم کے اگر ڈوب نہ مریں، تو کم از کم لوگوں سے منہ چھپاتے پھریں اور زندگی اُن پر گراں ہو جائے۔ جرائم مثلاً چوری، ڈاکہ، فراڈ وغیرہ کم و بیش دُنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں لیکن ٹھگی جس کی ترقی یافتہ شکل بوگس ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ خالصتاً برصغیر کی سوغات ہے۔ پرانے زمانے کے ٹھگ ، آج ہی کے بوگس ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کی طرح بڑے چرب زبان اور ایسے ایسے بھیس بنائے ہوتے تھے کہ لوگ اُنہیں ’’پہنچا‘‘ ہوا سمجھ کر اُنکے جال میں پھنس جاتے تھے، ہاتھ کی صفائی میں اُنہیں وہ مہارت حاصل تھی کہ آج کے کمپیوٹر بھی اُنکے سامنے ماند ہیں۔ برصغیر میں اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں ٹھگوں کا راج تھا۔ اُنہوں نے لوگوں کا گھر سے نکلنا محال کر دیا تھا، ہاں یاد آیا ’’پیر تسمہ پا‘‘ بھی ٹھگوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ برٹش انڈیا کے ایک گورنر جنرل ولیم بینٹنک( 1828 تا 1835) نے اپنے عہد میں جہاں بیشمار اصلاحات کیں، وہاں ستی کی وحشیانہ رسم اور ٹھگوں کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ کاش!
٭٭٭٭
چترال میں مارخور اور پہاڑی بکرے کے شکار کی اجازت
حکومت پاکستان نے مارخور کے شکار کیلئے ایک امریکی سے 92 ہزار ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 29 لاکھ روپے) اور ایک سوئس سے پہاڑی بکرے کے ایک لاکھ 55 ہزار وصول کئے ہیں۔ مارخور ہمارا قومی جانور ہے لیکن ہم نے اس کی نگہداشت اورتعداد بڑھانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ پہاڑی بکرے بھی ، کم قیمتی جنس نہیں۔ اسی طرح ہمارے صحرائوں میں تلور ایسے نایاب پرندے پائے جاتے ہیں جن کیلئے عرب شہزادوں میں بڑی کشش اور تڑپ پائی جاتی ہیں۔ اُنہیں کسی نے اس وہم میں مبتلا کردیا ہے کہ تلورکا گوشت ، سونے کے کشتے کی تاثیر رکھتا ہے۔ تلور، مرغابیاں دیگر مسافر پرندے، پہاڑی بکرے اور مارخور ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ربع صدی پہلے تک پنجاب میں بھی پرندوں کی خوبصورت ا قسام پائی جاتی تھیں جنہیں ہم تقریباً چاٹ چکے ہیں۔ کالر کے علاقے میں دھان کے کٹنے کے بعد چڑوں کی ایک خاص نسل کے ڈار کے ڈار اُترا کرتے تھے جو سب گوجرانوالہ کے کھابوں کی نذر ہو جاتے رہے ہیں، یار لوگ دور دراز کا سفر طے کر کے محض چڑے اُڑانے کیلئے گوجرانوالہ پہنچا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی دوست کے اصرار پر ہمیں بھی اس جرم کا ارتکاب کرنا پڑا، جس کے بارے میں مشہور عرب شاعر ابوالعلا معری نے ایک شعر کہا تھا، جسے علامہ مرحوم نے اُردو کا جامہ پہنایا ہے…؎
یہ قاضیٔ تقدیر کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ہمارے ہاں، گھوگھی (فاختہ) اور تلیر تقریباً ناپید ہو گئے۔ تلیر بھی نومبر دسمبر میں وارد ہوتے تھے، جب کسان گندم بوتے ہیں وہ کرید کر گندم کے دانے کھا جاتے تھے۔ دیکھئے ! اجازت تو دے رہے ہیں لیکن ایسا نہ ہوکہ ڈالروں کے لالچ میں اپنے قیمتی اثاثوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
٭٭٭٭
دُبئی: اداکارہ میرا کی طبیعت خراب، امریکی ہسپتال میں داخل
انسٹا گرام سے بھیجی گئی تصویر میں اداکارہ میرا کو دبئی کے نہایت ہی مہنگے امریکی ہسپتال میں استراحت فرماتے دکھایا گیا ہے۔ اُنکے کچھ ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ بعد کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ کوئی فکر کی بات نہیں، ذرا تھکاوٹ اور طبیعت بوجھل ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے ہسپتال کو اپنے وجود سے سرفراز فرمایا۔ کہنے والوں نے تو کہہ دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں لیکن یہ اتنی سادا بات بھی نہیں۔ اُن کی علالت کی خبر انکے لاکھوں پرستاروں پر بجلی بن کر گری ہے۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ کہیں اُنہوں نے نیب مبارک کی جھلک تو نہیں دیکھ لی کیونکہ نیب شریف کی زیارت ہوتے ہی سب سے بڑا سہارا ’’طبیعت کی خرابی‘‘ اور ہسپتال میںنزول ہوتا ہے۔ ویسے تو میرا جی نے بڑی صاف ستھری زندگی گزاری ہے، حلال کمایا ہے، ٹیکس کی پائی پائی ادا کی ہے لہٰذا منی لانڈرنگ یاٹیکس چوری سے اُن کا رشتہ جوڑنا نہایت گھٹیا سیاست ہو گی۔ ’’تھکاوٹ اور طبیعت کا بوجھل‘‘ ہونا بھی قرین قیاس نہیں لگتا، کیونکہ اُنہوں نے کبھی بھی مشقت کے کام کو ہاتھ نہیں لگایا اور طبیعت بھی اُن لوگوں کی بوجھل ہوتی ہے، جو بسیار خور ہوتے ہیں۔ قدرت نے اُنہیں مشقت اور بسیار خوری کی آزمائش میں کبھی ڈالا ہی نہیں۔ بہرحال پرستاروں سے اُن کی صحت کا ملہ اور عاجلہ کی دُعا کی درخواست ہے اورساتھ ہی میرا جی سے بھی عرض ہے کہ اب انکی عمر اللہ اللہ کرنے کی ہے‘ لہٰذا وہ اس شہر یا ملک کا قصد نہ کیا کریں، جہاں تھکاوٹ ہونے کا ڈر ہو۔ ہم فقیروں کامشورہ ہے کہ اگر ملک سے نکلنا پڑے تو اپنے آپ کو حج اور عمرہ تک ہی محدود رکھیں۔
٭٭٭٭