1970ء میں عام انتخابات ملکی تاریخ کے واحد شفاف ترین الیکشن تھے جس میں مجموعی طور پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی اور جمہوری‘ آئینی‘ قانونی‘ اخلاقی اور دنیا کے تمام مسلمہ اصولوں کے مطابق اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کو اقتدار کی منتقلی ہونی چاہئے تھی۔
ہماری سیاہ تاریخ ہے کہ بدقسمتی سے تمام اصولوں وقوانین کو پامال کرکے اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کو اقتدار نہیں دیا گیا اور صدریحیٰی خان نے اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لئے اقلیتی جماعتوں سے میل ملاپ کرکے اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا جبکہ ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کے علاوہ دیگر تمام سیاسی قائدین نے بھی شیخ مجیب کے حق میں اصولی بات نہیں کی کیونکہ شیخ مجیب کے انتخابی منشور میں زرعی اصلاحات سرفہرست تھیں اور تمام جاگیرداروں کو علم تھا کہ اگر شیخ مجیب اقتدار سنبھال لیتے ہیں اور زرعی اصلاحات ہوتی ہیں تو ان کی جاگیریں چھن جائیں گی اسی لئے انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی اور پھر اداروں نے بھی مساوی برتاؤ نہیں کیا اور حق مانگنے والوں کو غدار قرار دیکر یہ نوبت آگئی کہ ملک دولخت ہونے کے حالات پیدا ہوگئے۔ ایئرمارشل اصغر خان کو حق بات کہنے پر بنگالیوں کا ایجنٹ قرار دیکر تضحیک کی گئی۔ ان حالات میں یحیٰی خان ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے ملاقات کرکے جب لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور ملاقات کے بعد بھٹو صاحب نے صحافیوں کے سامنے جو کہا اس کا مفہوم ہے کہ ’’ادھر ہم‘ ادھر تم‘‘ تو پھر ملک دولخت ہونے میں وقت ہی نہیں لگا۔
1977ء کی تحریک کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے پھانسی کی سزا دی گئی اور بعد میں پھانسی کی سزا پر دستخط کرنے والے ایک جج نے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اعتراف کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو سزا سنانے والے ہائیکورٹ بنچ کے سربراہ کا جب انتقال ہوا تو ان کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاہ تاریخ میں تمام اداروں اور سیاستدانوں کی ناانصافیاں اور جانبداری واضح ہے جس سے ملک کا نقصان ہوتا رہا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو کے دور حکومت تک سیاست میں کرپشن نہیں تھی لیکن اس کے بعد سیاست پر جاگیرداروں کے بعد صنعت کاروں نے بھی قبضہ جمانا شروع کیا اور ملک کی پالیسیوں کی تشکیل قومی و عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ ذاتی طور پر عمران خان کا کرپشن کے خلاف پرعزم ہونا قابل تعریف ہے لیکن ان کی پارٹی میں یا حکومتی اتحاد میں کوئی فرشتے نہیں بیٹھے۔ شاید اسی لئے بارہا عوامی مطالبے کے باوجود کرپشن و ملاوٹ پر سزائے موت کا قانون منظور نہیں کیا جارہا۔
عمران خان کرپشن و ملاوٹ پر سزائے موت کے قانون کو اولین ترجیح میں رکھ کر اس کی منظوری یقینی بنائیں ۔ بے شک کرپشن و ملاوٹ پر سزائے موت کے قانون کا اطلاق اس قانون کی منظوری کے بعد ہونیوالے ان جرائم پر ہی ہو اس سے مستقبل میں تو ان جرائم کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔بے شک ماضی میں ہونیوالے ان جرائم میں ملوث لوگوں کا ٹرائل موجودہ قوانین کے تحت کیا جائے لیکن سزائے موت کا قانون منظور ہونا بہت ضروری ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا ۔
جنرل پرویز مشرف نے جب نیب کا ادارہ قائم کرکے ایک ریٹائرڈ جرنیل کو اس کا سربراہ مقرر کیا تو انہوں نے ٹرائل کے لئے فہرست مرتب کی جس میں سرفہرست چوہدری برادران تھے اور جب انہوں نے کارروائی کے لئے جنرل مشرف سے منظوری طلب کی تو ان کو تبدیل کردیا گیا اور بعد میں آنیوالے چیئرمین نیب نے چوہدری برادران کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
میرے خیال میں موجودہ چیئرمین نیب سے پہلے نیب نے کچھ بھی نہیں کیا اور اب چیئرمین نیب نیک نیتی سے کام کررہے ہیں لیکن اس اصول پر عمل ضروری ہے کہ کسی بھی پہلو سیجانبداری کا تاثر پیدا نہیں ہونا چاہئے اسی لئے اگر کسی کے خلاف صرف ابھی انکوائری چل رہی ہے اور اسے حراست میں لے لیا جاتا ہے تو پھر ان تمام لوگوں کو حراست میں لیا جائے جن کے خلاف انکوائری چل رہی ہے۔ اسی طرح اگر نیب پروفیسرز اور کچھ سیاستدانوں اور ان سے وابستہ زیر حراست لوگوں کو ان کی عمر کا خیال کئے بغیر ہتھکڑی لگاکر عدالت میں لاتی ہے تو پھر یہی طریقہ کار سب لوگوں کے ساتھ روا رکھا جانا چاہئے۔
میرے لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ملکی استحکام اور وفاق کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے ساتھ نیب بطور ادارہ یکساں سلوک کرے اور یہ تاثر نہ جائے کہ کسی مخصوص پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی صرف زیرتفتیش ہونے پر میڈیا میں پگڑیاں اچھال دی جائیں جبکہ دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ فرشتے بنے پھرتے رہیں۔
اسی طرح عدلیہ کو بھی ماضی میں ’’عدالتی قتل‘‘ کے اعترافی داغ کو دھونے کے لئے غیر جانبداری اور یکساں سلوک کرکے دکھانا ہوگا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھ کے عوام کی اکثریت نے پیپلزپارٹی کو منتخب کیا ہے اور پیپلز پارٹی کے اس مینڈیٹ کو تسلیم بھی کیا جانا چاہئے اور ان کی توہین کا پہلو ختم ہونا چاہئے کیونکہ گزشتہ چند ہفتوں سے میڈیا میں جو کچھ چل رہا ہے اور اچھا ہوا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔
24گھنٹے ایک مخصوص پارٹی کی توہین درست نہیں کیونکہ حکومت کے اتحادی چند لوگوں کے متعلق کون نہیں جانتا کہ ماضی میں اقتدار میں رہ کر انہوں نے قومی خزانے کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور اب یہ لوگ حکومت کا حصہ بن کر ایک چھوٹے صوبے کی منتخب قیادت کو مجرم قرار دے رہے ہیں جس سے حالات ایک بار پھر خطرناک صورتحال اختیار کرتے نظر آرہے ہیں اور ردعمل میں گزشتہ کئی روز سے بلاول اور زرداری کے بیانات ایسے ہی آرہے ہیں جس طرح کے بیانات سقوط ڈھاکہ سے قبل شیخ مجیب کے آتے تھے۔
ماضی میں سندھ میں جئے سندھ و دیگر مقامی چھوٹی جماعتوں نے سندھ کی آزادی کی بات کی لیکن عوام ان کے ساتھ نہیں تھے اسی لئے وہ وقت کے ساتھ غیر موثر ہوگئیں لیکن اگر اب اداروں نے مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ نہ کیا تو خدانخواستہ پیپلزپارٹی کل کلاںسندھ کی آزادی کی بات کرسکتی ہے جس سے ہمارے اولین دشمن بھارت کو مداخلت کا موقع مل جائے گا اور ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اگر ادارے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں اور میڈیا میں بھی نیب کے زیر تفتیش تمام لوگوںکا مساوی ٹرائل ہوتا ہے تو پھر کوئی بھی اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا اور نہ ہی یکساں رویئے کے بعد ملکی سالمیت کو کسی قسم کے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔
18ویں ترمیم باقاعدہ آئینی طریقہ کار کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ نے منظور کی تھی اب اس کے متعلق میڈیا پر بیان بازی کے بجائے اس میں تبدیلی کا جو آئینی طریقہ کار ہے اسے ہی اپنایا جانا چاہئے اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں ترمیم کے لئے ضروری اکثریت کے بعد 18ویں ترمیم میں تبدیلی ممکن ہوگی۔ چیف جسٹس سمیت کوئی بھی شخص قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتا البتہ قانون کی تشریح کی جاسکتی ہے۔ اسی لئے 18ویں ترمیم میں تبدیلی کی خواہشات میڈیا پر کرنے کے بجائے متعلقہ ایوانوں میں ہی اچھی لگیں گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024