ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں مزنگ چونگی سے پیدل ہی ہاسٹل واپس آرہا تھا 1976ء کا زمانہ ہوگا کہ اس اثنا میں ایک گاڑی قریب آ کر رکی۔ دیکھا تواندر خواجہ ضیاء الحق عرف ’’بلو گھنٹہ گھریا‘‘ نظر آیا۔ لیکن ٹھہریئے ذرا آگے بڑھنے سے قبل بلو گھنٹہ گھریا کا تعارف کرواتا چلوں۔ بلو پہلوان گوجرانوالہ کے علاقے گھنٹہ گھر کا رہائشی تھا۔ جب خوف اور دبدبے کی خاطر آتشیں اسلحہ کی بجائے طاقت کا استعمال ہوتاتھا تو ایسے پہلوان بڑے نامور ہوجاتے تھے۔ بلکہ ’’نامی گرامی‘‘ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔ بلو بڑا قد آور اور کڑیل جوان تھا، بڑی دہشت تھی اسکی لاہور اور گوجرانوالہ میں۔ قتل کے کئی مقدمات میں بھی ملوث ہوکر بری ہوتا رہا بالآخر ایک روز اپنے بھائی کی انتخابی مہم میں اپنے مخالف ’’بالا پیرے دا‘‘ کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ دونوں میں ایک قدرمشترک تھی کہ وہ ایک ہی محلے یا شائد ایک ہی گلی کے رہنے والے تھے دونوں قتل ہوئے اور دونوں پر ہی پنجابی زبان میں فلمیں بنائی گئیں۔ ذکر ہو رہا تھا بلو پہلوان گھنٹہ گھریا کا۔ جب ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ کر مزنگ چونگی سے ہاسٹل کی جانب روانہ ہوئے تو بلو پہلوان مزنگ اڈے پراپنے ایک دوست ’’کاکا پہلوان‘‘ سے ملنے اسکے ڈیرے پرگیا، میں بھی ہمراہ تھا۔ کاکا پہلوان نے بڑی ’’آبرو‘‘ کی (اس محکمے کے لوگ خدمت کو آبرو کہتے ہیں) جب مجھ سے تعارف ہوا کہ میں ایک ’’سیاسی آدمی‘‘ بھی ہوں تو اس نے ایک خوب نقطہ بیان کیا کہ ’’دیکھوجی بدمعاشوں کی بھی یونین ہونی چاہئے‘‘ دلیل اس نے یہ دی کہ ہمیں کوئی تحفظ ہی حاصل نہیں۔ جب چاہے پویس پکڑ کے لے جاتی ہے۔ گاہے بگاہے تھانے بھی بلاتی رہتی ہے ساتھ ہی بلو پہلوان کا گلہ کیا کہ اس میں رکاوٹ ہے میرے ساتھ متفق نہیں۔ بعد میں جہاں جہاں بھی میں نے یہ واقعہ سنایا تو احباب خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ آج بعض لوگوں کو جس حال میںدیکھ رہا ہوں۔ مجھے کاکا پہلوان یاد آ رہا ہے کہ چلیں بدمعاشوں کی یونین نہ سہی شائد قومی لٹیروں کی انجمن کسی سیاسی اتحاد کے نام سے وجود میں آجائے۔
بسنت کی آمد آمد ہے بارے ذکر اس تہوار کا بھی ہوجائے کہ یہ موسمی ہے یا مذہبی۔ چلیں یہ بحث پھر کسی اور وقت کیلئے چھوڑتے ہیںذرا شمس الرحمان فاروقی کی زبانی دلی کی بسنت کا حال سنیں اوران کی انشاء پردازی کا لطف اٹھائیں۔ سال 1769/ 1768ء مرتب کی بسنت کے دن تھے۔ آفتاب برج حمل میں آیا ہی آیا تھا۔ موسم بدل رہا تھا، آتی گرمیاں تھیں۔ مدرسے میں چھٹی تھی۔ سارا شہر ہلکے پستی زرد رنگ میں ڈوباہوا تھا۔ کیاہندو کیا مسلمان، بسنت کا ذوق سب کو تھا۔ سلطان جی بارگاہ بسنتی کپڑے پہنے عورتوں مردوں کے جھنڈ شام و سحر نظر آتے تھے۔ پہلے مسلمانوں کو اس موسم اوراس کے میلوں سے رغبت نہ تھی لیکن حضرت سلطان جی اور امیر خسرو کا تعلق بسنت کے تیوہار سے قائم ہوا تو چیت کے مہینے کا وسط ہوتے ہوتے دلی کے سارے مسلمان بسنتی رنگ میں رنگ جاتے تھے۔ چاند رات ہی سے بسنت چڑھانے کی تقاریب کاسلسلہ شروع ہوجاتا۔ سب سے پہلے، اللہ میاں کی بسنت بھوجلہ کی پہاڑی پر جامع مسجد کے نیچے، چاند رات کو چڑھتی۔ پھر دن نکلنے پر قدم شریف پر بسنت چڑھاتے۔ دوسرے دن حضرت قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی صاحب کی بارگاہ میں بسنت پیش ہوتی اورتیسرے دن قوال لوگ حضرت سلطان الاولیا کی خانقاہ پر بسنت لے جاتے۔ اس طرح دلی کے بائیسوں خواجگان کی درگاہوں پر بسنت چڑھتی اور ہر بسنت کے ساتھ قوالوں، نغمہ سرایوں، صاحبان حسن و جمال، ہاتھوں میں عطرپھول پان لئے ہوئے زائرین کا جم غفیر رہتا۔ اس دن میں بھی بسنت کی سیر کونکلا تھا۔ چیت کی بارہ تاریخ تھی، شیخ وقت حضرت کلیم اللہ صاحب جہاں آبادی کی بسنت اٹھی تھی۔ میں خود تو زرد پوش نہ تھا، آخر مولویت کی کچھ شرم رکھنی تھی۔ لیکن اس وقت سارا عالم بسنتی کپڑوں والوں کی آتش رخسار سے پڑا دہک رہا تھا۔ کلام میں وہ اثر تھا کہ واقعی جب چاہتا تھا کوئی ایسا ہوتا جس کی یاد میں میرا بھی رنگ زرد ہوتا۔ کلیم اللہ صاحب جہان آبادی کی درگاہ کے بالکل سامنے ایک فقیر۔ خوش لباس و خوش صورت، سنائی غزنوی کی مثنوی کے اشعار پڑھ رہا تھا۔ کیا شعر تھے اور کیاآواز تھی۔ اللہ رے اس درویش کی محویت، ماحول سے بے خبری۔ اس کا پورا بدن انہماک کی تصویر تھا۔ پیشانی پرایک پروقار بلکہ حاکمانہ شکن۔ میں وہیں رک کر رہ گیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38