آج کوئی وارث شاہ کو قبر سے بولنے کا کہہ رہا ہے اور کوئی بلھے شاہ کو پکار رہا ہے قصور میں بے قصور زینب کی معصومیت کو پہلے کچلا گیا اور پھر اسکی جان لے لی گئی۔ قصور شہر میں اس قسم کے واقعات رونما ہونے کا تسلسل باقی شہروں کی نسبت زیادہ ہے، اس شہر کے مسائل کیا ہیں؟ اس شہر میں لوگوں کی نفسیات کیا ہے؟ اور شہر کا ماحول کیا ہے ان باتوں پر غورو فکر کرنا بھی ضروری ہے۔ جس شخص کا ہیولہ نظر آ رہا ہے اس کی انگلی پکڑے معصوم زینب پارہ پارہ ہونے کے سفر پر خاموشی کیساتھ رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات نائلہ سادات نے کہا کہ اس منظر سے یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ بچی کیلئے یہ شخص بالکل اجنبی نہیں تھا۔ اس تحقیق اور تفتیش کے دوران اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سات برس کی معصوم بچی تو نیلے پیلے غبارے دیکھنے بھی جا سکتی ہے۔ سات برس کی معصوم بچی تو گڑیا خریدنے کی خواہش میں بھی جا سکتی ہے اور سات برس کی معصوم بچی تو ہوا کے تخت پر اڑتے جھولے جُھولنے کو بھی جا سکتی ہے اور اور باغ میں تتلیوں کے پیچھے بھی نکل سکتی ہے۔ اس عمر میں گناہ و ثواب کا کوئی تصور بھی موجود نہیں ہوتا اور نفسانی خواہشات کی تانے بانے بھی دل و دماغ میں کہیں نہیں ہوتے۔ بس بچپن کی ایک ترنگ ہوتی ہے جو کسی غریب بچی کو بھی اسی طرح محسوس ہوتی ہے جس طرح کسی بڑے گھر کی بچی کے احساسات کو گدگداتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ قصور کے ایک عام گھرانے کی زینب بعض اوقات زیادہ پراعتماد اور باصلاحیت ہوا کرتی ہے، زینب کی گھر سے روانگی اور ایک اجنبی کی انگلی تھامے ننے منے پاؤں سے دھیرے دھیرے پڑھتے قدموں کا منظر دیکھ کر اس مکروہ شخص کا ہیولہ دکھائی دیتا ہے جو اپنی بیمار ذہنیت کے ساتھ زینب کو لے کر ہوس کی آماجگاہ کی طرف جا رہا تھا۔ میں دیر تک اس بدشکل ہیولے کو دیکھ کر سوچتی رہی کہ ایسے لوگوں کی تربیت، سوچ تعلیمی پس منظر اور روزمرہ کے مشاغل کیا ہوتے ہونگے اور معاشرے میں یہ لوگ کہاں پنپتے اور پلتے پھولتے رہتے میں اور ان کی شخصیت کے مکروہ رنگ کسی بھی آس پاس کے فرد پر عیاں نہیں ہوتے؟ یا پھر ہمارا معاشرہ ابھی اتنا پڑھا لکھا نہیں کہ اپنے درمیان رہنے والوں کی ذہنی اور جسمانی حرکات و سکنات پر غور و فکر کر لے۔ آج اس مکروہ شخص سے سارا قصور انجان انجان بن رہا ہے حالانکہ یہ شخص قصور شہر میں اجنبی نہیں ہو سکتا۔ زینب کے والدین کو کسی بھی ایجنڈے کا حصہ بننے سے پہلے اپنی بیٹی کی معصومیت کیلئے اس شخص کو پہچاننا چاہئے اور پھر قصر شہر کے لوگوں کو بھی یہ ذمہ داری پورا کرنا چاہئے۔ پولیس پہلے پہل تو سوئی رہی مگر آپ بوجھل دل عوام کے جذباتی ہو کر باہر نکلنے کے منظر میں بھی کہیں دکھائی دے رہی ہے اور قصور شہر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان سارے مناظر میں پولیس منظر سے غائب ہے اور وزیراعلیٰ شہباز شریف گہرے اندھیروں کے بعد پو پھوٹنے کے بعد کے وقتوں میں زینب کے گھر سے ہو کر چلے گئے۔ زینب جیسا واقعہ پہلا نہیں ہے اور جس قدر بے شرمی سوچ کے اندر تک سرایت کر رہی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ آخری واقعہ ہوگا۔ ہاں اس واقعہ کے آخری ہونے کے امکانات تبھی ہونگے جب زینب کی انگلی تھام کر چلنے والے اس مکروہ ہیولے کو کوڑے کے اسی ڈھیر پر سرعام پھانسی دی جائے جہاں زینب کی معصومیت کو تار تار کر کے اس درندہ صفت انسان نے پھینکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے گھناؤنے واقعات دنیا کے اور ممالک میں بھی ہوتے ہیں مگر اکثر ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ انکے معاشرے کے اصول و ضوابط اور تعلیم و تربیت میں جنسی آزادی کے عناصر نے اس قسم کے ماحول کو جنم دیا ہے مگر ہمارے ہاں ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں یقیناً یہ بیمار ذہنیت، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا ہیجان اور پھر بے راہروی اور بے کاری جیسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یوں تو دنیا میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک سینکڑوں گُل کھیلتے ہیں اور بے اندازہ پھول شاخوں سے ٹوٹ کر خاک کا رزق بنتے ہیں مگر قدرتی اموات کا دکھ اور یوں منتشر کر کے سانسیں کھینچ لینے کے ستم کا غم جداگانہ حیثیت کا ہے اسی لئے اس قسم کے واقعات کا دکھ لہو بن کر کئی آنکھوں سے ٹپک پڑا ہے۔ میں نے اکثر یہ بات محسوس کی ہے کہ پنجاب کے ملتان کے آس پاس اور قصور جیسے علاقوں کو بھی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اسی طرح شامل کرنا چاہئے جیسا جھلملاتی روشنیوں اور بڑی بڑی شاہراہوں پر رواں دواں گاڑیوں کا منظر چند بڑے علاقوں کا ہے۔ تعلیم، صحت اور ترقی کا سارا محور و مرکز صرف وہ راستے اور مقامات نہیں ہونا چاہئیں جہاں سے عزت مآب کا آنا جانا ہوتا ہے۔یا پھر ووٹ لینے ہوتے ہیں بلکہ بڑی بڑی جگمگاتی شاہراہوں کے اندر جا کر دور دراز کے ٹوٹے پھوٹے علاقوں پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ ملتان کے آس پاس کے علاقوں کی کتنی عورتیں بڑے شہروں میں مزدوری پر بڑے شہروں میں ہوتی ہیں، اس کا اندازہ حکومت پنجاب نے کبھی نہیں لگایا ہو گا اور پھر ان عورتوں کے خاندان کے افراد کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ میں تبدیلی لانے کی کتنی ضرورت ہے ورنہ جرائم پیشہ افراد میں ہی اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مسائل کا حل کسی بڑے سانحہ کے رونما ہونے کے بعد کرتے ہیں۔ ہم غریبوں کی مدد ان کے گھر لاش کی موجودگی سے پہلے نہیں کرتے۔ ہمارے خودغرض اور مفاد پرست حکمرانوں کو دیکھنا چاہئے کہ ملک میں امارت اور غربت کا فرق جتنا بڑھتا جائے گا اتنا ہی معاشرے میں فرسٹریشن پھیلے گا۔ قصور کی زینب یا پھر اسی قسم کی اور بے قصور معصوم بیٹیاں یا پھر خود معصوم بچے جو درندگی کا شکار ہوتے ہیں اور پھر ان کی معصومیت کو تیز آندھی کی نذر ہونے کے بعد سارے منظر کو تلپٹ کرنے کیلئے موت کے سپرد کرنے کا ضروری عمل ایک طمانچہ ہے جو آج پورے سماج کے منہ پر بار بار پڑ رہا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب کوئی اپنے ریشمی اور ملائم رخسار تھپتھپا کر وقت کو آگے کھسکا نہیں سکے گا۔ اب یہ خوبصورت پھول زمین بوس ہو کر خاک میں نہیں مل رہے ہیں بلکہ ان کی آہیں اور سسکیاں فریاد بن کر شور مچا رہی ہیں اور یہ شور ہوا میں چھید کر رہا ہے۔ ہمیں اب درختوں کی شاخوں پر چہچہاتی چڑیوں کی طرف جاتی کالی آندھیوں کو روکنا ہو گا اور درختوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ زینب کے والدین عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے۔ مجھے نہیں معلوم بچی کو کس کی ذمہ داری میں سونپ کر گئے تھے، کوئی خالہ، چچا چچی یا اور رشتہ دار تو تھے کیونکہ ابھی یہ معاشرہ اور سماج ایسا نہیں بنا ہے کہ جہاں یہ ننھے منے پھول تازہ ہوا میں لہلہاتے رہیں گے، تتلیاں باغوں میں اڑتی رہیں گی اور ہمارے بچے اور بچیاں بے خوف ہو کر ’’ککلی کلیر دی‘‘ اور ’’پگ میرے ویر دی‘‘ کھیلتی رہیں گی۔ اب اس سماج میں نہ ہی پگ ہے اور نہ کوئی کسی کا ویر ہے۔ آج وارث شاہ قبر سے نکل آئے۔ جب تک ایسے لوگوں کو قبر میں نہیں اتارا جائے گا اور چوکوں پر پھانسی نہیں دی جائے گی البتہ اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب اور پاکستان کے سکولوں میں درندہ صفتوں سے بچائو کی حفاظتی تدابیر کی تربیت کا آغاز ہو چکا ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024