انٹیلی جنس اور فوجی تعاون معطل کرنے کے فیصلہ کے باوجود امریکہ پرامید ہے کہ پاکستان مذاکرات کی میز پر واپس آئے گا۔ عوام خوش ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ قدم پہلی دھمکی کے بعد ہی اٹھا لینا چاہیے تھا۔ دیرآید درست آید۔ مگر سوال پھر وہی کہ کیا روکھی سوکھی کھانے کے دعوے پورے قد کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔ ایک ٹویٹ نے یہاں ارتعاش پیدا کر دیا۔ ہر قسم کے حالات سے بے خبر اب بھی بیدار ہوتے نظر نہیں آتے۔ اگرچہ ٹوئٹر نے انکارکر دیا مگر سراہنا چاہئے کہ صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ معطل کرنے کے لئے مہم زور پکڑ رہی ہے وہاں عالمی شکایات رجسٹرکے صفحات امریکی اقدامات اور پالیسیوں کے خلاف مذمتی بیانات کی سیاہی سے پُر ہو چکے ہیں۔ ایران، عراق، شام، چین، روس، یورپ تک نالاں ہیں، شاکی ہیں کہ دہائیوں پر محیط دوستی بھی تلخ نوائی کو روکنے میں ہمیشہ ناکام رہی۔ جب کوئی ٹھکانہ نہیں توختم کرنے کی تکرار کا ہے کو۔ بلاشبہ اپنا تحفظ ہر ملک کو کرنا چاہئے۔ یہ صلاحیت کسی بھی ملک سے بڑھ کر ہمارے پاس ہے۔ اکثریتی رائے ہے کہ ’’ایم 4رائفل‘‘ کی پابندی ہمارے حق میں جائے گی۔ قومی وقار خود مختاری کی طرف حالیہ دورکا پہلا قدم ہے تو اس طرف امریکی اخبار بھی چیخ اٹھے پاکستان کے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ انڈین سرداری کی پگ صرف خیال تک ہی محدود رہے گی۔ غیرذمہ الفاظ سے جنگی پارہ بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر پر غیر یقینی، بدامنی معاشی تنزلی کا راج ناسمجھ حروف کے تحائف ہیں معاملہ مقابلہ یا طاقت کا نہیں۔ بجا کہ تصادم کی طرف جاتے ممالک میں ایک علاقائی جبکہ دوسری عالمی قوت ہے۔ پر دیکھنا چاہئے کہ دونوں ایٹمی ہتھیاروں کے وسیع ذخائر رکھتے ہیں۔ ہر دوکی روش پوری دنیا کے امن کو بھسم کرڈالے گی۔ دوطرفہ پابندیوں کی دوڑ جیتنے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے گنجائش مل بیٹھ کر سوچنے، مسائل کا حل نکالنے کی تدابیر اپنائی جائیں۔
ڈالرکی یکدم چڑھائی کا منظردیکھ رہے تھے کہ پٹرول نے آگ لگا دی۔ استعمال کی کوئی ایسی چیز نہیں جو مہنگی نہیں ہوئی۔ قیمتوں میں روپوں کے حساب سے اضافہ ہو تو بتائیے ہر خاندان پر ان کی تعداد کے مطابق ہزاروں روپے کا اضافی بوجھ اپنے ملک، اپنے اداروں سے ناراض اس حکومت نے ڈال دیا۔ جو رات دن عوامی مسائل کے حل تک چین سے نہ بیٹھنے کا اعلان کرتے تھکتی نہیں۔ احتجاج کے ایک سطری بیان کے بعد اپوزیشن بھی غائب ہے۔ ایک طرف جان توڑگرانی، دوسری طرف منتخب نمائندے درمیان میں عام پاکستانی، حزب اختلاف حکومت صرف اخباری سرخیوں اور ٹی وی ٹکرز میں نظرآتے ہیں عملاً تصویر بے حد دل شکن، مایوس کن ہے، غلط ہے تو قابل احترام چیف جسٹس کبھی نہ پوچھتے کہ ’’عام آدمی کی کس کو فکر ہے۔‘‘ احتساب عدالت کراچی کے ریمارکس تھے کہ کڑوا سچ ہے یہاں امیر اور غریب کے لئے ایک الگ قانون ہے۔ تو یہ بھی سچ ہے کہ اشرافیہ کے تحفظ کے لئے قانون تک بدل دئیے جاتے ہیں۔ سینکڑوں لوگ لمحہ بھرمیں راکھ بن گئے۔ حکمرانی روایتی طریقوں کے بعد کیا ہوا؟ اوگرا نے اپنے افسروں کو بچانے کے لئے آئل ٹینکرز کا معیار جانچنے کا شعبہ ختم کر دیا۔ قصہ ہی مکا دیا۔ کرتے پھرو احتجاج۔ ایک آدھ لڑھک گیا توکوئی فکر نہیں۔ جتنی اتھارٹیز بنا دی گئی تھیں ایسی ہی ایک ’’حلال فوڈ‘‘ جوش کی کسی ساعت وجود میں آئی۔ تین سال گزرگئے ۔ فعالیت، درآمدی اشیاء کی چیکنگ کا کوئی نظام ہی ترتیب نہ پا سکا۔ سیاسی مقدمات کے بوجھ کو ٹمٹماتی عدالت عظمٰی تعلیم کے لئے سب لوگوں کو اکٹھا کرنے کی نوید سنائے توکس کو دکھ ہوگا۔ تعلیم و صحت دونوں ہی بدترین صورت اختیارکر چکے ہیں۔ دعا ہے کہ ہم سب اس عظیم مشن کو ہی کم ازکم اکٹھا ہو جائیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات کی افادیت مسلم مگر اول و آخر ترجیحات نہیں بننا چاہئیں۔ لاہور اور کراچی کے باہرکی دنیا ترجیح ہونی چاہئے کوئٹہ ایک شہر کا نام ہے اس کی حد کے بعد پسماندگی محرومی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اربوں روپے کے مالک سرداروں کے صو بہ کے ایک شہر ’’ڈیرہ بگٹی‘‘ میں کالی کھانسی سے اموات بڑھتی جا رہی ہیں صرف پروٹوکول پر پابندی لگا دیں تو پورے ملک کو صاف پانی فراہم ہو سکتا ہے۔ تھر میں بھوک، ننگ سے مرنے والے بچوں کی تعداد سن کر دل کانپ اٹھتا تھا اب سردی میں بخار نمونیہ موت کے فرشتے بن کر نازل ہو رہے ہیں۔ قابل صد عزت چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ مفاد عامہ کے کیسز میں دئیے گئے فیصلوں کے عندیہ کو لازمی طور پر نافذکروائیں۔ تھر میں تو پینے کے لئے آلودہ، گندہ پانی بھی میسر نہیں۔ اگرعام آدمی کی کسی کو فکر ہوتی تو صرف لاہور میں اٹھارہ ہزار افراد ہڈی کے گودے کو منجمند کرنے والی سردی میں کھلے آسمان تلے سرد راتیں گزارنے پر مجبور ہوتے؟