حج سکینڈل : ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات سے الگ کرنے کا حکم‘ کیس خراب ہوا تو کسی معاف نہیں کریں گے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + اے پی پی + بی بی سی) سپریم کورٹ نے حجاج کرام کو 700 ریال فی کس واپس کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے حج سکینڈل کی تحقیقات کےلئے تفتیشی افسر کو سعودی عرب بھجوانے کا حکم دیا ہے اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات سے الگ کر کے تین دن میں رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ڈی جی ایف آئی اے کی وجہ سے کیس خراب ہوا تو کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جاوید اقبال‘ جسٹس راجہ ریاض‘ جسٹس تصدق جیلانی‘ جسٹس انور ظہیر جمالی‘ جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے پر مشتمل لارجر بنچ نے حج سکینڈل کیس کی سماعت کی۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے خود ہی حکومت کو درخواست دی ہے کہ انہیں اس مقدمے کی تحقیقات سے علیحدہ کر دیا جائے۔ مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ برطرف کئے جانے والے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی اور سابق ڈائریکٹر جنرل حج راو شکیل اور سابق سیکرٹری مذہبی امور آغا سرور کے پاکستان میں اکاونٹس کی تفصیلات نہیں مل سکی ہیں۔ اعظم سواتی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حامد سعید کاظمی اور اس سکینڈل کے ایک اور کردار زین س کھیرا کے درمیان ہونے والی گفتگو اور اس سکینڈل میں ملوث دیگر افراد کے بیرون ممالک بنک اکاونٹس کی تفصیلات اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے حوالے کر دئیے ہیں۔ اعظم سواتی کے وکیل احسان کنڈی نے کہا کہ ابھی تک ملزموں کے بنک اکاﺅنٹس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں جبکہ تفتیشی افسر کو بھی ابھی تک سعودی عرب نہیں بھیجا گیا۔ وزارت مذہبی امور کے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ تفتیشی افسر حسین اصغر کا ویزا لگ گیا ہے اور وہ بہت جلد سعودی عرب جائیں گے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ 35 روز گزرنے کے بعد تفتیشی افسر کو بھیجا جا رہا ہے اب وہ کیا کرے گا جس انداز میں تفتیش کی جا رہی ہے ہم اس سے تنگ آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو ابتدا سے کہہ رہے ہیں کہ ہم سے نہیں تو کم از کم خدا سے ڈریں اور دیانتداری سے کام کریں۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے نے ڈی جی حج آپریشن راﺅ شکیل کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے بارے میں وفاقی وزیر داخلہ کا بیان عدالت میں جمع کرایا جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ڈی جی حج آپریشن مقرر ہونے کے بعد ان کا سعودی عرب جانا ضروری تھا جس کیلئے ان کا نام ای سی ایل سے نکلوایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر داخلہ کو راو شکیل کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے نام نکالنے کے لئے نیب پالیسی کا غلط استعمال کیا۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے سے گذشتہ سماعت پر فیصلہ پڑھوایا اورکہا کہ عدالت نے آپ کے بارے میں واضح احکامات دیئے تھے۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے اس مقدمہ کو بدنام کر رہے ہیں۔ کنٹریکٹ پر کام کرے والا ڈی جی کیا تفتیش کرے گا۔ اگر تفتیش کار مجرموں کو تحفظ دینے لگ گئے تو پھر اﷲ ہی ہم پر رحم کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو بعض افسروں کی کرپشن کے باعث کروڑوں روپے کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ یہ قومی خزانے کی رقم ہے بوجھ ذمہ داروں پر ڈالنا چاہئے۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ جس ملک کے افسروں نے بیرون ملک ہوٹل خرید رکھے ہوں ان سے ایماندارانہ تفتیش کی کیا توقع کی جائے۔ اداروں میں چن چن کر غلط لوگوں کو تقرر کیا جا رہا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ای سی ایل سے نام وزیر داخلہ نے نہیں نکلوایا۔ جس پر جسٹس رمدے نے ان سے کہا کہ آپ حامد سید کاظمی کے وکیل ہیں۔ حکومت کا دفاع کیوں کر رہے ہیں۔ آپ بیٹھ جائیں۔ سیکرٹری وزارت داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ 26 ہزار 660 حجاج کو ادائیگی کیلئے رقم 6 بینکوں کے حوالے کر دی ہے۔ 18 سو برانچیں ادائیگی کریں گی جبکہ سعودی عرب سے ملنے والا معاوضہ اداکر دیاگیا ہے ۔ جس پر عدالت نے حکومت کی کارکردگی کو سراہا۔ عدالت کے استفسار پر تحقیقاتی افسر ڈی آئی جی حسین اصغر نے بتایا کہ حامد سعیدکاظمی اور راﺅ شکیل کے بنک اکاﺅنٹ نہیں ملے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ڈی جی ایف آئی اے کی وجہ سے کیس خراب ہوا تو کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ سیکرٹری مذہبی امور نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بنکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ ہفتہ سے ادائیگی شروع کریں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ حاجیوں کو 700 نہیں ایک ہزار ریال واپس کرنے چاہئیں تھے۔ سیکرٹری مذہبی امور نے کہا کہ اڑھائی سو ریال اس کے علاوہ ہیں جو اب تک 13 ہزار حاجیوں کو واپس کئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری مذہبی امور سے کہا کہ آپ اور حکومت نے اچھا کام کیا ہے۔ عدالت نے سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم دوسرا تفتیش کار کہاں سے لائیں، ہمیں کوئی جادو کی چھڑی دی جائے، جس کو مارنے سے سب ٹھیک ہوجائے۔