مولانا فضل الرحمان نے فرمایا ہے‘ حکومت میں واپس نہ آنے کا فیصلہ اٹل ہے‘ ناموس رسالت قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دینگے۔ اب حکمرانوں سے گلی کوچوں میں جنگ ہو گی۔
سب سے پہلے تو ہم مولانا کی خدمت میں یہ شعر ادنیٰ تصرف کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ…؎
مولوی ہرگز نہ شد مولانا فضل
تا غلامِ محمدِ عربی نہ شد
انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ملک دینی بنیادوں پر حاصل کیا گیا ہے‘ اس لئے اسکی سب سے بڑی سیاسی قوت دینی حلقے اور جماعتیں ہیں اور مولانا فضل الرحمان اگر پورے ملک کے دیندار طبقوں جماعتوں کو یکجا کر دیں اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دینی سیاسی محاذ قائم کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ریاست اسلام کا قلعہ بن جائے اور اپنے نظریے کی اساس پر قائم ناقابل تسخیر قوت بن جائے۔ یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اصطلاحات پاکستان کے سترہ اٹھارہ کروڑ عوام کے بارے میں استعمال کرنا امریکہ اسرائیل اور بھارت کے تراشیدہ بت ہیں اور یہاں کے عوام بت شکن ہیں‘ یہاں جس فرد ملت کو بھی ٹٹولیں‘ وہ دیندار نکلتا ہے۔ بدعملی ہو سکتی ہے مگر دین فروشی کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔ آج وہ تمام افراد جو یہاں سیکولرازم پھیلانا چاہتے ہیں اور اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریہ پاکستان کیخلاف بھونڈی آواز اٹھاتے‘ اندر سے کانپ رہے ہیں‘ ٹھٹھر رہے ہیں‘ وہ اب بھی باز آجائیں تاکہ محفوظ ہو جائیں وگرنہ یہاں تو سب کا ایک ہی عقیدہ ہے کہ…؎
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
٭…٭…٭…٭
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کہتے ہیں‘ پیپلز پارٹی سانپ ہے‘ کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ (ق) لیگ صرف اقتدار چاہتی ہے‘ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں۔
رانا صاحب اب تو خاموش ہو جائیے اور یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ سانپ کا زہر جان بچانے والی دوائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ باقی یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پاس زہر مہرہ ہے‘ اسے بھلا سانپ سے کیا ڈر اور جو لوگ سانپ سے ڈرتے ہیں‘ وہ کبھی سانپ کو مار نہیں سکتے۔ رہ گئی بات یہ کہ مسلم لیگ ق سیاسی جماعت نہیں‘ تو آپ بھلے اس سے مسلم لیگ کے استحکام کیلئے اتحاد نہ کریں‘ مگر یہ تو نہ کہیں کہ وہ سیاسی جماعت ہی نہیں۔ بس اقتدار چاہتی ہے۔ تو کیا یہ رانا صاحب کی اپنی جماعت عمر بھر اپوزیشن میں رہنے کیلئے سیاست میں آئی ہے؟
ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر کو سانپ سے نہیں ڈرنا چاہیے‘ جبکہ سانپ بھی کھلونا سانپ ہو۔ بھتہ خوروں کا راستہ آپ نے ضرور روکا ہو گا‘ مگر بھتہ نہیں روکا‘ وگرنہ منظر شفاف ہے‘ تصویر صاف سامنے آجاتی۔ آپ صرف دستاویزی اور ایجنڈے کی سیاست کر رہے ہیں‘ اگر سیاست کرتے ہوتے تو مسلم لیگ کو ایک بناتے اور ناقابل تسخیر ہو جاتے‘ بہرحال خیال اپنا اپنا‘ پسند اپنی اپنی‘ پپویار تنگ نہ کر‘ ہارن دیکر پاس کریں‘ ماں کی دعا‘ جنت کی ہوا‘ یہ ہے آپ کا سیاسی اثاثہ۔ کچھ کرکے دکھائیے اور خود کو اتنا مستحکم بنائیے کہ آئندہ انتخابات میں بہہ جا بہہ جا ہو جائے اور ایسا آپ کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ آپ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ…ع
وہ نہ کہوں گی جس کا تم کو انتظار ہے
٭…٭…٭…٭
ملتان میں مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں رانا اور ہاشمی گروپ میں تصادم ہو گیا‘ کارکنوں نے ایک دوسرے پر پتھروں کی بارش کر دی اور کرسیوں کا آزادانہ استعمال کیا۔
جاوید ہاشمی‘ مسلم لیگ نون کا شعلہ جوالہ اور اصل زر ہے‘ مگر انہیں سونے میں تولنے کے بجائے کھڈے لائن لگایا گیا ہے اور رانا ثناء جیسے مخلص مسلم لیگ نونی بھی ان کیخلاف پارٹی کے اندر پارٹی بنائے بیٹھے ہیں۔ رانا صاحب مسلم لیگ نون کا کتنا بھی دفاع کریں‘ مگر ہاشمی صاحب کا مقام اور ہے‘ رانا صاحب راجپوت ہیں اور راجپوت تو بنوہاشم کے بڑے معتقد ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اجلاس میں ہاشمی اور ثناء گروپ کا دست و گریباں ہونا‘ پارٹی کا گریباں چاک کرنے کے مترادف ہے۔
میاں نواز شریف‘ جاوید ہاشمی کو ان کا صحیح مقام دیتے تو رانا ثناء ان کیخلاف گروپ نہ بناتے اور اسکے جواب میں ہاشمی گروپ بھی نہ بنتا۔ اتنی بڑی پارٹی کو اگر اندر سے دیمک لگ گئی تو آئندہ کیا ہو گا؟ ملتان میں دھینگا مشتی ہوئی‘ اس کا میاں صاحب کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے‘ مسلم لیگ نون کے پاس اب تھپڑ اور کرسیاں صرف اپنوں کیلئے رہ گئی ہیں‘ ہاشمی صاحب اب یہی کہیں کہ…؎
من از بیگانگاں ہرگز ننالم
کہ با من ہر چہ کرد آں آشنا کرد
(مجھے غیروں سے ہرگز گلہ نہیں کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا آشنا نے کیا)
٭…٭…٭…٭
وزیراعظم نے اپنے کارڈ کامیابی سے کھیلے‘ فاصلے قربتوں میں بدل گئے۔
وزیراعظم گیلانی اور صدر زرداری نے متحدہ کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت اور جمہوریت کو بچا لیا اور اب گیلانی نے مسلم لیگ نون کو بھی ہاں کر دی‘ یہ واقعتاً ایک دلدل میں سے گوڈے گوڈے پھنسنے کے بعد نکلنے کی روداد ہے جس پر صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کو مبارکباد دینی چاہیے۔ بلاشبہ یہ سیاسی جیت ہے اور پیپلز پارٹی کی جے ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس ملک میں حکومت اور جمہوریت چلتی رہنی چاہیے تاکہ کوئی ایسا خلاء پیدا نہ ہو کہ جس کو کوئی ایسی طاقت پر کر دے کہ بعد میں سیاست دان روتے رہیں اور آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو جائیں۔ تطہیر کا عمل اسی طور جاری رہتا ہے کہ تسلسل برقرار رہے۔ بھارت اس تاک میں ہے کہ پاکستان میں حکومت گرے‘ جمہوریت کا پہیہ رکے‘ مارشل لاء لگے اور یوں پاکستان اور پیچھے چلا رہ جائے مگر ہم بھارت سے کہتے ہیں کہ:…؎
گڈی آئی گڈی آئی ناروال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
اس ملک میں انتخابات ہوتے رہیں گے تو خود بخود کچرا الگ اور صاف ستھری حکومت اور جمہوریت باقی رہ جائیگی۔
سب سے پہلے تو ہم مولانا کی خدمت میں یہ شعر ادنیٰ تصرف کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ…؎
مولوی ہرگز نہ شد مولانا فضل
تا غلامِ محمدِ عربی نہ شد
انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ملک دینی بنیادوں پر حاصل کیا گیا ہے‘ اس لئے اسکی سب سے بڑی سیاسی قوت دینی حلقے اور جماعتیں ہیں اور مولانا فضل الرحمان اگر پورے ملک کے دیندار طبقوں جماعتوں کو یکجا کر دیں اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دینی سیاسی محاذ قائم کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ریاست اسلام کا قلعہ بن جائے اور اپنے نظریے کی اساس پر قائم ناقابل تسخیر قوت بن جائے۔ یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اصطلاحات پاکستان کے سترہ اٹھارہ کروڑ عوام کے بارے میں استعمال کرنا امریکہ اسرائیل اور بھارت کے تراشیدہ بت ہیں اور یہاں کے عوام بت شکن ہیں‘ یہاں جس فرد ملت کو بھی ٹٹولیں‘ وہ دیندار نکلتا ہے۔ بدعملی ہو سکتی ہے مگر دین فروشی کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔ آج وہ تمام افراد جو یہاں سیکولرازم پھیلانا چاہتے ہیں اور اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریہ پاکستان کیخلاف بھونڈی آواز اٹھاتے‘ اندر سے کانپ رہے ہیں‘ ٹھٹھر رہے ہیں‘ وہ اب بھی باز آجائیں تاکہ محفوظ ہو جائیں وگرنہ یہاں تو سب کا ایک ہی عقیدہ ہے کہ…؎
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
٭…٭…٭…٭
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کہتے ہیں‘ پیپلز پارٹی سانپ ہے‘ کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ (ق) لیگ صرف اقتدار چاہتی ہے‘ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں۔
رانا صاحب اب تو خاموش ہو جائیے اور یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ سانپ کا زہر جان بچانے والی دوائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ باقی یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پاس زہر مہرہ ہے‘ اسے بھلا سانپ سے کیا ڈر اور جو لوگ سانپ سے ڈرتے ہیں‘ وہ کبھی سانپ کو مار نہیں سکتے۔ رہ گئی بات یہ کہ مسلم لیگ ق سیاسی جماعت نہیں‘ تو آپ بھلے اس سے مسلم لیگ کے استحکام کیلئے اتحاد نہ کریں‘ مگر یہ تو نہ کہیں کہ وہ سیاسی جماعت ہی نہیں۔ بس اقتدار چاہتی ہے۔ تو کیا یہ رانا صاحب کی اپنی جماعت عمر بھر اپوزیشن میں رہنے کیلئے سیاست میں آئی ہے؟
ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر کو سانپ سے نہیں ڈرنا چاہیے‘ جبکہ سانپ بھی کھلونا سانپ ہو۔ بھتہ خوروں کا راستہ آپ نے ضرور روکا ہو گا‘ مگر بھتہ نہیں روکا‘ وگرنہ منظر شفاف ہے‘ تصویر صاف سامنے آجاتی۔ آپ صرف دستاویزی اور ایجنڈے کی سیاست کر رہے ہیں‘ اگر سیاست کرتے ہوتے تو مسلم لیگ کو ایک بناتے اور ناقابل تسخیر ہو جاتے‘ بہرحال خیال اپنا اپنا‘ پسند اپنی اپنی‘ پپویار تنگ نہ کر‘ ہارن دیکر پاس کریں‘ ماں کی دعا‘ جنت کی ہوا‘ یہ ہے آپ کا سیاسی اثاثہ۔ کچھ کرکے دکھائیے اور خود کو اتنا مستحکم بنائیے کہ آئندہ انتخابات میں بہہ جا بہہ جا ہو جائے اور ایسا آپ کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ آپ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ…ع
وہ نہ کہوں گی جس کا تم کو انتظار ہے
٭…٭…٭…٭
ملتان میں مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں رانا اور ہاشمی گروپ میں تصادم ہو گیا‘ کارکنوں نے ایک دوسرے پر پتھروں کی بارش کر دی اور کرسیوں کا آزادانہ استعمال کیا۔
جاوید ہاشمی‘ مسلم لیگ نون کا شعلہ جوالہ اور اصل زر ہے‘ مگر انہیں سونے میں تولنے کے بجائے کھڈے لائن لگایا گیا ہے اور رانا ثناء جیسے مخلص مسلم لیگ نونی بھی ان کیخلاف پارٹی کے اندر پارٹی بنائے بیٹھے ہیں۔ رانا صاحب مسلم لیگ نون کا کتنا بھی دفاع کریں‘ مگر ہاشمی صاحب کا مقام اور ہے‘ رانا صاحب راجپوت ہیں اور راجپوت تو بنوہاشم کے بڑے معتقد ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اجلاس میں ہاشمی اور ثناء گروپ کا دست و گریباں ہونا‘ پارٹی کا گریباں چاک کرنے کے مترادف ہے۔
میاں نواز شریف‘ جاوید ہاشمی کو ان کا صحیح مقام دیتے تو رانا ثناء ان کیخلاف گروپ نہ بناتے اور اسکے جواب میں ہاشمی گروپ بھی نہ بنتا۔ اتنی بڑی پارٹی کو اگر اندر سے دیمک لگ گئی تو آئندہ کیا ہو گا؟ ملتان میں دھینگا مشتی ہوئی‘ اس کا میاں صاحب کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے‘ مسلم لیگ نون کے پاس اب تھپڑ اور کرسیاں صرف اپنوں کیلئے رہ گئی ہیں‘ ہاشمی صاحب اب یہی کہیں کہ…؎
من از بیگانگاں ہرگز ننالم
کہ با من ہر چہ کرد آں آشنا کرد
(مجھے غیروں سے ہرگز گلہ نہیں کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا آشنا نے کیا)
٭…٭…٭…٭
وزیراعظم نے اپنے کارڈ کامیابی سے کھیلے‘ فاصلے قربتوں میں بدل گئے۔
وزیراعظم گیلانی اور صدر زرداری نے متحدہ کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت اور جمہوریت کو بچا لیا اور اب گیلانی نے مسلم لیگ نون کو بھی ہاں کر دی‘ یہ واقعتاً ایک دلدل میں سے گوڈے گوڈے پھنسنے کے بعد نکلنے کی روداد ہے جس پر صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کو مبارکباد دینی چاہیے۔ بلاشبہ یہ سیاسی جیت ہے اور پیپلز پارٹی کی جے ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس ملک میں حکومت اور جمہوریت چلتی رہنی چاہیے تاکہ کوئی ایسا خلاء پیدا نہ ہو کہ جس کو کوئی ایسی طاقت پر کر دے کہ بعد میں سیاست دان روتے رہیں اور آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو جائیں۔ تطہیر کا عمل اسی طور جاری رہتا ہے کہ تسلسل برقرار رہے۔ بھارت اس تاک میں ہے کہ پاکستان میں حکومت گرے‘ جمہوریت کا پہیہ رکے‘ مارشل لاء لگے اور یوں پاکستان اور پیچھے چلا رہ جائے مگر ہم بھارت سے کہتے ہیں کہ:…؎
گڈی آئی گڈی آئی ناروال دی
دشمناں دے سینے اتے اگ بالدی
اس ملک میں انتخابات ہوتے رہیں گے تو خود بخود کچرا الگ اور صاف ستھری حکومت اور جمہوریت باقی رہ جائیگی۔