آٹھ فروری سے آٹھ فروری تک

Feb 12, 2025

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ


دل تو تھا کہ آج کے کالم کے عنوان ‘‘آٹھ فروری سے آٹھ فروری تک’’ کے ساتھ ہر وہ حقیقت بیان کر دوں جس کی نہ صرف زمینی حقائق بلکہ واقعاتی شہادتیں بھی تصدیق کریں لیکن یہ خدشہ موجود ہے جو پختگی کے لحاظ سے یقین کی حدوں کو چھو رہا ہے کہ لاکھ احتیاط اور جبر کے باوجود کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور نکل جائیگی جو ارباب اقتدار یا صاحب اختیار کی ناسازی طبع کا موجب بن جائیجسکے نتیجے میں اپنا انجام اور قیام بھی سلاخوں کے پیچھے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا راقم اسی میں عافیت سمجھ سکا کہ بھلے کالم کا عنوان یہی رکھ لو لیکن اپنے اوپر جبر اور صبر دونوں کا نفاذ آخری حدوں تک برقرار رکھنا ہے۔ ویسے بھی یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اس گذشتہ ایک سال آٹھ فروری سے آٹھ فروری تک کیسی کیسی حقیقتوں سے پردہ نہیں اْٹھا، انصاف دینے والے خود انصاف کیلئے کن کن دروازوں پر دستک دیتے نظر نہیں آئے، جو مرنے مارنے پر تْلے نظر آتے تھے اپنی ساری تیرکشی کے بعد انکا انجام بھی تو نامہ بری پر ہی منتج ہوا جسکا ذکر خیر یہ راقم اپنے کالم کی اختتامی لائنوں میں کریگا۔
دوستو یہ میرا ہمزاد بھی کمال کی چیز ہے۔ جب کبھی کسی بڑی مشکل میں ہوتا ہوں یا کسی سوال کا جواب تلاش نہیں کر پاتا یا پھر سب کچھ علم ہونے کے باوجود انسانی فطرت سے مجبور مصلحتوں کا شکار ہو کر دل کی بات نہیں کر پاتا تو یہ مجھے ایسے ایسے اقتباس، ایسے ایسے حوالہ جات اور اشعار لا کر دیتا ہے کہ جو بات کہنا چاہتا ہوں اور کہتا نہیں، ہمزاد کی لائی چیزوں کو منقول کر کے میرا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اپنے کالم کا آغاز جیسے ہی 8 فروری 2024ء  کے دن کے زمینی حقائق سے کرونگا تو دھر لیا جاونگا۔ ایسے میں اپنے ہمزاد نے فیض احمد فیض کے ان اشعار سے ایک تصویر پینٹ کی اور خاکسار کیْسامنے رکھ دی اور بولا ان اشعار کو اپنے کالم میں منقول کر لو، قارئین تک تمہاری بات بھی پہنچ جائیگی اور تمہاری بچت بھی ہو جائے گی۔ فیض صاحب کا کلام کچھ اسطرح ہے:
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
٭٭٭
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
٭٭٭
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
٭٭٭
بہت ہے ظلم کہ دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
٭٭٭
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
٭٭٭
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سای۔ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں۔
اس نظم پر میں نے سوالیہ نشان لگایا تو میرا ہمزاد 
 کہنے لگا کہ یاد ہے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ایک حاضر سروس کہا کرتے تھے کہ تنقید ضرور کرنی چاہیئے لیکن مثبت انداز میں، سو فکر نہ کرو معاملات مثبت حدود کے اندر ہی رہینگے جسکے ساتھ میرے ہمزاد کا اس جماعت کے فالورز کو بھی مشورہ ہے کہ زبان درازی کے بغیر بھی اپنی بات کچھ شستہ انداز میں کہی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا کریں جب قیادت ہی معاملہ فہمی سے دور ہو اور نامہ بھی لکھیں تو کچھ اسطرح بقول احمد فراز’’ کہیں رنجشوں کی کہانیاں کہیں دھمکیوں کا سلسلہ’’۔ عرض ہے ایسے خط غنیم کی طرف سے ہی لکھے جا سکتے ہیں ورنہ اگر تم کہو 
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
 جو گْناہ کریں وہی معتبر، 
یہ عجیب روزِ حساب ہے
 یہ عجیب رْت ہے بہار کی، کہ،، 
ہر ایک زیرِ عتاب ہے
 "کہیں پر شکستہ ہے فاختہ کہیں،،
زخم زخم گلاب ہے"
 میرے دشمنوں کو، جواب ہے، 
نہیں غاصبوں پہ شفیق میں
 میرے حاکموں کو خبر کرو نہیں،، 
آمروں کا رفیق میں
 مجھے زندگی کی ہوس نہیں مجھے،، 
خوفِ مرگ نہیں ذرا
 میرا حرف حرف لہو لہو میرا،،، لفظ لفظ ہے آبلہ
تو پھر کہاں سے اور کیسا جواب؟ اور معاملات اس آٹھ فروری سے اگلے آٹھ فروری تک بھی ایسے ہی رہینگے۔

مزیدخبریں