مقبوضہ کشمیر : فیصلہ کن اقدام کاوقت کب آئے گا؟

ڈاکٹر سبیل اکرام 
 مقبوضہ جموں کشمیرکی خصوصی حیثیت کاخاتمہ بھارت کے ترکش کاآخری تیر تھاجسے اس نے تحریک آزادی کشمیرکوکچلنے اورناکام بنانے کے لیے استعمال کیا ہے گویا اب بھارت کے ترکش میں کوئی ایسا تیر نہیں بچا جسے وہ کشمیریوں پرچلااورتحریک آزادی کودباسکے۔ یہ درست ہے کہ ظلم کے ان حربوں اورہتھکنڈوں سے اہل کشمیر کے سینے شق اورلہولہان ہیں لیکن ان کے حوصلے بلندہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں جوکچھ ہورہا اوربھارتی نیتا ؤں کے پاکستان کے بارے میں جو عزائم وارادے ہیں یہ حالات بھارتی جارحیت کے سامنے مضبوط بندباندھنے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے عملی اقدام کے متقاضی ہیں۔یہ بات معلو م ہے کہ کشمیرتقسیم ہندکانامکمل ایجنڈاہے ان حالات میں یہ کافی نہیں کہ ہم سال میں ایک باراظہاریکجہتی کرلیں اور اس کے بعد لمبی تان کرسوجائیں۔5 فروری کو تجدید عہد کادن منایا جاتا ہے۔ اس بات کاعہد کہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں،مظلوم ہیں ،پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں اور ان کی مددوحمایت کرنا ہمارافرض ہے۔
5 فروری کو اظہار یکجہتی کا مقصدمظلوم کشمیریوں کی آواز اور پیغام کو دنیا تک پہنچانا ، بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیر کواجاگر کرنااوراہل کشمیرکویہ بتلانا مقصودہے کہ آزادی کے سفرمیں وہ تنہانہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ 5 فروری اظہار یکجہتی میں ہمارے لیے یہ بھی پیغام ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی فرد یاجماعت کانہیں بلکہ پوری قوم کااجتماعی مسئلہ ہے۔انگلی،بازو،ہاتھ،پاؤں کٹ جائے توانسان زندہ رہ سکتاہے لیکن شہ رگ کٹنے کے بعد روح اورجسم کارشتہ برقراررہنے کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔بانی پاکستان نے کہاتھا، ’کشمیرہماری شہ رگ ہے‘پھراس بیان کوحقیقت میں بدلنے کے لیے عملی قدم بھی اٹھایا تھا۔ بعدازاں جب 1947ء میں جہادکشمیر شروع ہواتو پاکستانی قوم نے ایمانی جذبے کے ساتھ اس میںحصہ لیا تھا۔
1947ء کی طرح آج بھی کشمیری مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور اپنے وطن میں ہونے کے باوجودہر قسم کی خوشی سے محروم قید بامشقت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔80لاکھ آبادی والے خطے میں 10لاکھ بھارتی فوجی دندنارہے ،کشمیریوں کا خون بہا رہے اوران کی لاشیں گرار ہے ہیں۔ ہردس کشمیریوں پرایک خونخوار فوجی بندوق تانے کھڑاہے۔ اتنی کم آبادی والے خطے میں اتنی بڑی تعدادمیں فوج کے تعینات ہونے کی دنیا میںکوئی مثال نہیں ملتی ہے۔آج مقبوضہ جموں کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ظالمانہ اقدام کوساڑھے پانچ سال ہوچلے ہیں۔ جیساکہ یہ بات پہلے ذکر ہوچکی ہے کہ یہ اقدام بھارت کے ترکش کاآخری تیر ہے جووہ آزماچکااور چلاچکا ہے۔ 5اگست2019ء کے اقدام کے بعد بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں کشمیرمیں جوظلم کیاوہ 1947ء کے بعد اب تک کے تمام مظالم پر حاوی اور بھاری ہے۔ بھارتی فوجی بستیوں کا گھیراؤ کرتے ، رگوں میں خون جمادینے والی یخ بستہ ہواؤں ، برفباری میںبچوں،بوڑھوں،خواتین اور بیماروں کو گھروںسے باہر کھلے آسمان تلے گھنٹوں کھڑارکھتے ہیں۔
 ایک طرف برفانی موسم کی سختیاں ہیں تودوسری طرف بھارتی فوج کے مظالم ہیں۔بھارتی فوج کے ہاتھوںبستیاں،مکانات، باغات، دکانیں،تباہ اورنذرآتش ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگاراوربے گھر ہوچکے ہیں۔5اگست 2019ء کے دنیا کے طویل ترین کرفیو کے نفاذ کے بعد کشمیری تاجروںکو اربوں روپے کانقصان ہواہے۔نہایت ہی قابل احترام بزرگ سید علی گیلانی قید کی حالت میں وفات پاگئے جبکہ سید شبیرشاہ،میرواعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، یٰسین ملک اور آسیہ اندرابی سمیت حریت کانفرنس کی تقریباً ساری قیادت اس وقت سے جیلوں میں قید ہے یاگھروں میںنظربندہے ان کومساجدمیں نماز جمعہ اداکرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جموں کی حالت وادی سے بھی بدتر ہے۔ شیوسینا،بجرنگ دل،آرایس ایس،وی ایچ پی کے مسلح دستے جموں کی شاہراؤں ،راجوری،بدرواہ،کشتواڑ اوردیگر علاقوں میں گشت کرتے اورمسلمانوں کی بستیوں پرحملے کرتے ہیں۔وہ بھارتی غیر ریاستی ہندو فوجی جنھوں نے کسی وقت ریاست جموں کشمیر میں خدمات انجام دی تھیں ان کی نسلوں کوجموں میں لایا اورآبادکیا جارہا ہے۔ جب1990ء میں تحریک شروع ہوئی تب ایک لاکھ پنڈت بھارت جابسے تھے اب ایک لاکھ کی بجائے نولاکھ پنڈتوں کی آباکاری کامنصوبہ ہے۔اس طریقے سے بھارتی حکمران اسرائیلی طرز پرجموں میں آبادی کاتناسب بدلنے اوراسے فوجی چھاؤنی بنانے پرتلے بیٹھے ہیں۔
جہاں تک مقبوضہ جموں کشمیرکے مسلمانوں کاتعلق ہے وہ نامساعد اورسخت ترین حالات میں بھی خوف زدہ اورپسپا ہونے کی بجائے آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہرقسم کی جانی ومالی قربانیاں دے رہے ہیں۔بھارتی فوج کے ظلم وستم کا کوئی بھی حربہ ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہیں کرسکاہے۔ وہ آج بھی ’پاکستان سے رشتہ کیالاالہ الااللہ‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور اس بات کا پختہ عزم وارادہ کیے ہوئے ہیں کہ آخری بھارتی فوجی کے انخلا اوروطن کی آزادی تک تحریک جاری رہے گی۔بھارتی فوج تمام تر مظالم کے باوجود آزادی کاجذبہ کچلنے میں ناکام ہے اس کاغصہ وہ سویلین کشمیریوں پر اتارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر فیصلہ کن موڑ پرپہنچ چکی ہے۔ اب یا کبھی نہیں کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں،خواتین کے عزم وحوصلے بلند تر ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اہل کشمیر اپنا حق اداکررہے ہیں۔اس لیے کہ پاکستان توکشمیری بچوں ،جوانوں ،بزرگوں اور ماؤں بہنوں کاجزوِ ایمان ہے پاکستان ان کے دلوں میں بستا ہے۔بھارت کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کادعوی کرتاہے ،کشمیری جب یہ دعوی سن کر پاکستان کی طرف امدادطلب نظروں سے دیکھتے ہیں تویہاں سے جواب ملتاہے ہم مجبورہیں،مصلحتوں اورمفادات کے اسیرہیںلہٰذاآپ اپنے مسائل خود حل کریں۔حالانکہ اس وقت سیاچن، سرکریک، زراعت، تجارت،معیشت، پانی،بجلی ، سکیورٹی ، سلامتی ، دہشت گردی اورملک کے استحکام سمیت جتنے مسائل درپیش ہیں۔ سب کاحل صرف اورصرف مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط ہے۔گویا ایک ہی بات ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے توہمارے تمام مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے75سال کاعرصہ گزرنے کے باوجود ہم سمجھ نہ سکے جبکہ بھارتی حکمرانوں نے تقسیم ہندسے پہلے ہی اس حقیقت کوجان لیا تھا۔ بھارتی پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ جس دن مسئلہ کشمیرحل ہوگیا پاکستان جغرافیائی اعتبار سے مکمل ہوجائے گا۔ بات صرف جغرافیائی تکمیل کی نہیں اہل کشمیر کے ساتھ ہمارادین وایمان کارشتہ بھی ہے جوہم سے عملی مدد واقدام کامتقاضی ہے۔
بھارت کے تمام سیاستدان، جماعتیں ،اخبارات ،چینلز کشمیریوں پرظلم ڈھانے اور اپنی پالیسیاں اہل کشمیر پالیسی مسلط کرنے کے بارے میں یکسوہیں۔ایسے میں ہمارافرض بھی ہے کہ ہم مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے یک دل ویک جان اوریک قدم ویک آوازہوجائیں۔ خاص کرایسے حالات میں کہ جب بھارت کے پاکستان کے بارے میں ارادے بالکل واضح ہیں۔ بھارتی نیتا پوری ڈھٹائی وبے شرمی سے پاکستان میں کھلی اور علانیہ مداخلت کے مطالبے کررہے ہیںاوردوسری طرف دکھ یہ ہے کہ ہمارے حکمران کشمیرکی آزادی کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہوئے ،شرماتے اورگھبراتے ہیں۔ ہم 1990ء سے 5 فروری کادن اظہار یکجہتی کشمیرکے طور پر مناتے چلے آرہے ہیں لیکن مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے آج تک ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھاسکے جبکہ 5 فروری کادن عملی اقدام کامقتاضی ہے۔ 5 فروری کے دن میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ ظلم وجبرسے قوموں کودبایا اورغلام نہیں بنایاجاسکتا۔ انگریز اورہندوتقسیم ہندکے خلاف، پاکستان کے قیام دشمن اورمسلمانوں کوغلام بناکررکھناچاہتے تھے لیکن پھرجو ہواوہ دنیا نے دیکھا انگریز اورہندودونوں ناکام ہوئے ، ہندوستان تقسیم ہوااورپاکستان قائم ہوا۔  ایسے ہی ہماراایمان ہے کہ ان شاء اللہ مقبوضہ جموں کشمیر بھی بھارتی تسلط سے آزادہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات،ترجیحات اورمذاکرات میں مسئلہ کشمیر سرفہرست رکھیں،دنیا کے تمام ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیے جائیں، مظفرآباد کوصحیح معنوں میں بیس کیمپ بنائیں اورسلامتی کونسل کی قراردادوں کوبنیادبناتے ہوئے عالمی عدالت انصاف سمیت تمام بین الاقوامی فورمز سے رجوع کریں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...