الیکشن کے بعد بھی دہشت گردی جاری 

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل پر دہشت گردوں کے حملے میں ایس ایچ او شہید ہوگیا جبکہ پولیس کی جوابی کارروائی میں 3دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ 5 فروری کو ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کے تھانہ چودھواں پر دہشت گردوں کے حملے میں پولیس کے 10جوان شہید اور نو شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 8 فروری سے قبل انتخابات کے شیڈول کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردی کے واقعات میں تسلسل اور تیزی آ گئی تھی مگر قوم اور اداروں کا عزم متزلزل نہ ہوا۔ 8 فروری کو کامیابی کے ساتھ انتخابات انعقاد پذیر ہوئے لیکن دشمن کی طرف سے شروع کیا گیا دہشت گردی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارت کے علاوہ پاکستان کا کون دشمن ہو سکتا ہے ؟ اس کی طرف سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کبھی ایران کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے کبھی افغانستان کی اور پاکستان کے اندر سے بھی اپنے سہولت کاروں کو بروئے کار لا کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔انتخابات سے قبل، انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد پولیس کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ملک کے اندر امن و امان برقرار رکھنے کی زیادہ ذمہ دار فورس ہے۔ پاکستان کے اندر دشمن کی طرف سے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کو بھی دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انتخابات سے چند روز قبل مچھ کے علاقے میں تین مقامات پر دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ مچھ تھانے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس اہلکاروں کی طرف سے گھیرے میں آنے کے باوجود سیرنڈر کرنے سے انکار کر دیا گیا یہاں بھی ایس ایچ او شہید اور تین ساتھی زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں کی طرف سے زیادہ ترخیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مچھ اور بولان کمپلیکسز پر ہونے والے حملوں سے قبل ہی بھارتی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ڈسکشن شروع ہو چکی تھی اس کو پاکستان کی ایجنسیوں نے مانیٹر کیا اور ان حملوں کو ناکام بنا دیا۔ آپریشن کلین اپ میں 24 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ حال ہی میں بلوچستان نیشنل آرمی کے ہتھیار ڈالنے والے سرفراز بنگل زئی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک دشمن عناصر چندپیسوں کے عوض بلوچستان کے معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کو بھارت فنڈنگ کرتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ہر موقع پر دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے مگر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے قوم کا متحد ہونا نہایت ضروری ہے۔ انتخابات ہو چکے ہیں حکومت سازی کا عمل جاری ہے اس دوران دہشت گرد بھی سرگرم عمل ہیں اس موقع پر ضروری ہے کہ سیاستدان دہشت گردی کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر اپنے اختلافات کو بالائے تاک رکھتے ہوئے متحد ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...