آئین کا تقدس ۔ اداروں کا احترام

وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے70 برس بیت چکے ہیں مگر پھر بھی ہمارے یہاں جمہوری روایات صحیح معنوں میں پروان نہ چڑھ سکیں جس کی سب سے بڑی وجہ بار بار آمریت کے نفاذ کو قرار دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں جمہوری نظام کا رونا تو پورے زور و شور سے رویا جاتا ہے مگر جب اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی باری آتی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحت ڈنڈی مارنے لگتی ہیں۔
سیاسی پارٹیوں میں آمریت کی وجہ سے پہلے سے ہی جیتنے والے سیاستدان پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، چاہے وہ جیسے بھی گھٹیا ہتھکنڈوں کو آزما کر کامیاب ہوئے ہوں۔ پارٹی ٹکٹوں کے حصول میں پیسے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور پسندیدہ حلقہ حاصل کرنے کے لاکھوں روپے نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے الیکشن پر لگانے والے یہ سیاستدان ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ کم اور اپنی دولت کو چوگنا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، یوں کرپشن کی روایت کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 موجود ہیں، اگر ان آرٹیکلز کے تحت امیدواروں کا چنائو ہوتا رہتا تو آج صورتحال مکمل طور پر مختلف ہوتی مگر اس سلسلے میں ہمیشہ مصلحت سے کام لیا گیا یا پھر غفلت برتی گئی۔
اگر ان آرٹیکلز کے تحت دیکھا جائے تو سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں سے اکثریت آدھی شقیں بھی پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی، ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اب یہ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ صرف وہ عوامی نمائندے ہی الیکشن لڑیں جو طے کردہ معیار پر پورے اترتے ہوں۔آرٹیکل 62کے چُنیدہ نکات۔ شرائط اہلیت ممبران پارلیمان۔ کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے،ماسوائے یہ کہ:
(الف) وہ پاکستان کا شہری ہو۔(ب) وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔(ج) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔(د) وہ سمجھدار ہو ، پارسا ہو،ایماندار اور امین ہو،اور کسی عدالت کا فیصلہ اسکے برعکس نہ ہو۔(ہ) اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آرٹیکل 63 کے چُنیدہ نکات۔
نا اہلیت برائے ممبر شپ پارلیمان
کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کیلئے نا اہل ہو گا، اگر (الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو ، یا (ب) وہ غیر بریت یا فتہ دیوالیہ ہو یا (ج) وہ پاکستان کا شہری نہ رہے ، یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے، یا
(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو، جس پر فائز شخص نا اہل نہیں ہوتا ، یا (ہ) اگر وہ کسی ایسی آئینی باڈی یا کسی باڈی کی ملازمت میں ہو ، جو حکومت کی ملکیت یا اسکے زیر نگرانی ہو ، یا جس میں حکومت کنٹرولنگ حصہ یا مفاد رکھتی ہو (و) اسے کسی عدالت مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر ، یا کسی ایسے طریقے پر عمل کرنا ، جو پاکستان کے نظریہ ، اقتدار اعلیٰ ، سالمیت ،یا سلامتی یا اخلاقیات یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی کیلئے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے ، یا اس کی تضحیک کا باعث ہو ، اس جرم کی سزا ہوئی ہو اور اسکو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔(ح) اسے کسی ایسے جرم کیلئے سزا یابی پر جو اخلاقی پستی کا جرم ہو اور اس پر سزا کم از کم دو سال ہو چکی ہو اور اسکو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔(ط) اسے پاکستان کی ملازمت ،یا کارپوریشن ، یا دیگر آفس ، جو قائم یا کنٹرول کردہ ہو ، فیڈرل گورنمنٹ کا ، صوبائی گورنمنٹ کا پر ہٹا دیا گیا ہو، اور اس کی بر طرفی کو پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو۔ جو کہ معاہد ہ کمپنی آر ڈیننس 1984ء میں تعریف کردہ ، کسی ایسی کمپنی عامہ نے کیا ہو، یا اس کی طرف سے کیا گیا ہو، جس کا وہ حصہ دار ہو،لیکن کمپنی کے تحت کسی منفعت بخش عہدے پر فائز مختار انتظامی نہ ہو، یا(س) وہ پاکستان کی ملازمت میں حسب۔ (اول) کوئی عہدہ جو ایسا کل وقتی عہدہ نہ ہو، جس کا معاوضہ یا تو تنخواہ کے ذریعے یا فیس کے ذریعے ملتا ہو،۔ (دوم) کوئی عہدہ جس پر فائز شخص مذکورہ عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے کسی فوج کی تشکیل یا قیام کا حکم وضع کرنیوالے کسی قانون کے تحت فوجی تربیت یا فوجی ملازمت کیلئے طلب کیے جانے کا مستوجب ہو، یا (ع) اگر اس نے قرضہ دو ملین روپیہ یا زیادہ لیا ہے ، کسی بینک ، فنانشل ادارے ، کو آپریٹو سو سائٹی یا کو آپریٹو باڈی سے، اپنے نام پر ، یا اپنی بیوی خاوند یا بچوں کے نام پر ، جو ایک سال تک واپس ادائیگی نہ ہو سکی ہو، یا اس قرضہ کو معاف کروایا گیا ہو۔(غ) وہ یا اسکی بیوی ، یا کفالت کار ، کوتاہی کر چکے ہوں، گورنمنٹ بقایا جات میں ، یوٹیلٹی بلز اخراجات میں ، بشمولہ ٹیلیفون ، بجلی ، گیس اور پانی چارجز زائد از دس ہزار روپیہ چھ ماہ تک ، دائری کاغذات نامزدگی تک۔(ف) اسے فی الوقت نافذالعمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا ہو۔
اگر کوئی سوال اٹھے کہ آیا مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن ، رکن رہنے کیلئے نا اہل ہو گیا ہے تو اسپیکر یا جیسی بھی صورت ہو چیرمین ، ماسوائے اسکے وہ فیصلہ کرے کہ یہ سوال پیدا نہ ہوا ہے ، اس سوال کو الیکشن کمیشن کو ریفر اندر معیاد تیس یوم کرے اور اگر وہ نہ بھیجے تو یہ تصورکیا جائیگا کہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائیگا۔ الیکشن کمیشن اس سوال کو اندر نوے یوم فیصلہ کریگا اور اگر اسکی رائے میں ممبر نا اہل ہو گیا ہے، تو اسکی ممبر شپ تحلیل ہو جائیگی اور اسکی سیٹ خالی ہو جائیگی۔ کالم کی حد پورے نکات کو سمیٹ نہیں سکتی ۔ متعلقہ شرائط کا سر سری جائزہ لینے سے تمام صورتحال واضح ہو جاتی ہے72" سالوں "میں کتنی حکومتوں نے اِن پر عمل کیا ؟ اگر واقعتا ہم آئین پر اُسکی روح کیمطابق عمل کرتے تو لمحہ موجود کے گھمبیر مسائل درپیش ہوتے ؟ اب اگر ذِمہ دار ادارے آئین۔ قانون کی بالادستی کی راہ پر چل پڑے ہیں تو پھر الزام تراشیاں کیوں؟ "63-62" ایک متفقہ آئین کے آرٹیکلز ہیں۔پابندی تو کرنا پڑے گی۔