خبر سْنی ہے کہ چائینہ والوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے اور اس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کیلئے ووہان سٹی جہاں سے اس مرض کی شروعات ہوئی ہے وہاں سات روز میں ایک جدید نیا ہسپتال کھڑا کر دیا ہے جس پر ہمارے ملک میں نہ صرف ایک طرف بڑی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس بات کو لیکر کچھ منچلے اپنے ملک اور اپنے معاشرے کا تمسخر بھی اْڑا رہے ہیں۔ میرا ظاہر میرا باطن میرا اندر میرا باہر میرا یقین میرا ایمان میرا وطن میرا پاکستان ہے۔ مجھ سے میری قوم اور میرے وطن کی تذلیل میں ایک لفظ برداشت نہیں ہوتا وہ علیحدہ بات ہے کہ ہم میں سے شائد ہی اِکا دْکا کوئی ایسا نگینہ ہو جسکا قول و فعل اپنے ملک کیلئے کوئی نیک نامی کما سکا ہو لیکن اس حقیقت کے باوجود اْن تمام اکابرین کو جو اس سباق میں طرح طرح کی پوسٹیں لگا رہے ہیں انہیں میں ایک اور حقیقت بھی دکھانا چاہتا ہوں اور اس غرض سے انہیں آج سے ایک صدی پہلے 1917ء کے زمانے میں لیے چلتا ہوں۔ تاریخ بتاتی ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریز سرکار کا راج تھا کہ 1917ء کے ایک دن لاہور شہر کے علاقے شاہ عالم مارکیٹ سے گزرتے ایک مسلمان مسافر نے سرکلر روڈ شاہ عالم مارکیٹ روڈ اور بانسوالہ بازار کے درمیان چوک کی ایک نکڑ پر نماز ادا کی- چونکہ اسی چوک میں دوسری طرف بھاٹی گیٹ کی طرف سے سرکلر روڈ جو شاہ عالمی کی طرف مڑتی ہے اسکی نکڑ پر ہندوؤں کا مندر موجود تھا اور پھر یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثریت کا حامل بھی تھا اس لئے ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور اور اس پر اْنھوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی - اس ہنگامہ آرائی کے بعد مسلمانوں نے دل میں یہ بات بٹھا لی کہ وہ بھی ہر حالت میں یہاں مسجد بنائینگے۔ معاملہ عدالت تک جا پہنچا- اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل جو کہ قائداعظم محمد علی جناح تھے اْنھوں نے تجویز دی کہ اگر وہ اس مقام پر یہاں صبح فجر سے پہلے مسجد تعمیر کرلیتے ہیں تو کیس کا فیصلہ انکے حق میں ہو جائیگا۔ یہ سننا تھا کہ مسلمانوں نے گاما پہلوان کی قیادت میں راتوں رات مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور جس مسلمان کے پاس جو سامان تھا اس نے وہ مسجد کی تعمیر کیلئے وقف کر دیا۔ یہاں تک کہ خواتین رات بھر اپنے سروں پر پانی رکھ کر لاتی رہیں تاکہ مسجد کی تعمیر ممکن ہو سکے- تاریخ بتاتی ہے کہ الصبح جب اْس چوک میں مندر کی گھنٹیاں بجنے سے پہلے وہاں مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلند کرتی نماز فجر کیلئے اذان بلند ہوئی تو اس ناقابل یقین حقیقت کے وجود پر دیکھنے والی ہر آنکھ طیرہ حیرت بنی ہوئی تھی کہ کیا ایسے دور میں جب مشینری کے استعمال کا دور دور تک بھی کوئی وجود نہیں ایسے میں انسانی ہاتھ یہ کمال بھی دکھا سکتے ہیں کہ ایک رات میں وہ ساڑھے چار مرلے پر ایک ایسی عمارت بھی کھڑی کر سکتے ہیں جسکا تصور ایک خیال تو ہو سکتا ہے لیکن اسے حقیقت میں ڈھلا ہوا جسے "مسجد شب بھر" کا نام دیا گیا دیکھنا کسی عجوبے سے ہر گز کم نہیں تھا۔ کہتے ہیں دن کو جب انگریز سرکار کی عدالت لگی تو اس حقیقت کے عملی وجود کو دیکھتے ہوئے انگریز سرکار کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ نہ دیتی۔ سو دوستو آپکی تاریخ ان کارناموں سے بھری پڑی ہے کہ جو کام دوسری اقوام جدید ٹیکنالوجی اور دوسرے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مہینوں اور ہفتوں میں کر سکتی ہیں وہ کام آپ بغیر وسائل ایک رات میں کر سکتے ہیں۔ اپ تو اس اْمت سے ہیں جنہوں فاقوں کے ساتھ پیٹ پر پتھر باندھ کر تین دنوں میں جنگ خندق کے موقع پر خندق کھود کر کفار کے لشکر کو حیران کر دیا تھا۔ بات بڑی واضع ہے کہ اْن دنوں ایمان اور عزم دونوں اپنے عروج پر تھے۔ یہ بات یہ خاکسار نہیں کہہ رہا بلکہ ان الفاظ پر غور کیجئے جو اس موقع پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہے تھے کہ …؎
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے میں
جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024