کل 13 فروری کو فیض احمد فیض کا 109واں جنم دن ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت میں فیض صاحب کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کی کافی گونج رہی۔ بھارت میں فیض کی یہ نظم مظاہرین کا قومی ترانہ بن چکی ہے۔ اس نظم کا ایک شعر ہے:۔؎
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھائے جائیں گے
اس شعر کو ہندو مخالف قرار دیکر تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ فیض کا یہ کلام ہندو مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔ فیض احمد فیض نے ان بتوں کا ذکر کیا ہے جو کعبے میں نصب تھے اور نبی اکرمؐ نے ان کو ختم کیا۔ عرب ان بتوں اور پتھروں کی تعظیم اور عبادت اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان کو اللہ سے قریب کر دینگے۔ یہ اصنام چونکہ عبادت کیلئے نصب کیے جاتے تھے اس لیے عرب ان کو انصاب بھی کہتے تھے اور ان کے اوپر مختلف قسم کی نذریں بھی چڑھاتے تھے۔ حضور نبی کریمؐ نے شرک کی مذمت کی۔ اللہ کے ماسوا تمام معبودوں کو باطل کہا۔ انکے ماننے والوں اور پوجنے والوں کو گمراہ بتایا۔ قرآن کریم کی سورہ فاطر میں اللہ نے فرمایا۔
ترجمہ: ’’اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو گے تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے اور جو سنتے بھی تو جواب نہ دیتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دینگے‘‘ فیض احمد فیض انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی بھی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر شاعرانہ طریقے سے دیکھا جائے تو ہمارا ذہنی رشتہ صوفیا ہی سے ہے۔ طریقت اور شریعت کے رجحانات ہمارے ہاں موجود رہے ہیں۔ اہل طریقت انسان دوستی، محبت اور آشتی کا درس دیتے تھے۔ دنیاداری ، ظاہرپرستی، تعصب، نفرت او رتحکم کیخلاف تھے۔ سات آٹھ برس کی عمر سے لیکر کالج تک فیض صاحب کا معمول تھا کہ اپنے والد کے ساتھ مسجد میں باقاعدہ نماز پڑھنے جایا کرتے۔ نماز کے بعد مولوی ابراہیم سیالکوٹی کا درس بھی سنتے تھے۔ جب فیض صاحب ایم اے میں تھے۔ ان دنوں نیلا گنبد مفتی محمد حسین کا درس سننے جایا کرتے۔ یہ درس تقریباََ ایک سال کا تھا۔ صوفی تبسم کے گھر میں سید سلیمان ندوی، عطاء اللہ شاہ بخاری اور دیگر علماء کرام سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ میرا جی نے فیض کے ایک مصرع ’’خوابوں کی مقتل گاہیں‘‘ پر اعتراض کیا تھا۔ میرا جی کو عربی نہیں آتی تھی۔ فیض نے سید سلیمان ندوی کو نظم سنائی تو انھوں نے داد دی اور کہا کہ مقتل گاہیں میں کیا خرابی ہے۔ بالکل درست استعمال ہے۔ انھوں نے سند کے طور پر حافظ کا مصرع پڑھا:۔؎
کس نہ دانست کہ منزل گہ مقصود کجا است
مولانا مودودی کے بارے میں فیض کی رائے تھی کہ ’’جیل خانے میں ان سے سرسری ملاقات رہی۔ جب میں امرتسر میں تھا تو انھیں اپنے کالج میں بلایا تھا۔ وہ نثر بہت اچھی لکھتے تھے۔ اپنے نظریے کے حوالے سے عالم آدمی تھے‘‘ محبِ وطن اور غیر غیر محب وطن کی اصطلاح کے بارے میں فیض کا کہنا تھا کہ محب وطن تو ہم جانتے ہیں، غیر محب وطن کے بارے میں معلوم نہیں۔ محب وطن کے معانی تو اس لفظ میں موجود ہیں۔ جہاں سے اختلاف پیدا ہوتا ہے اس کا تعلق حب وطن یا بغض وطن سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق آپکے نظریے سے ہے کہ آپکے نزدیک حکومت کیسی ہونی چاہیے اور سیاست کیسی ہونی چاہیے۔ جو آپ سے متفق نہیں ہے، اس کو آپ غیر محب وطن کہہ دیتے ہیں۔ یہ تصور سوائے ہمارے ملک کے اور کہیں رائج نہیں ہے۔ انگلستان میں بہت سے مخالف گروپ ہیں لیکن وہ آپس میں ایک دوسرے کو غیر محب وطن نہیں کہتے۔ اسلام کے فعالی کردار کے بارے میں فیض کہا کرتے کہ دین، دنیا میں عوامی فلاح و انقلاب کیلئے آیا تھا۔ جیسا بڑا انقلاب اسلام نے پیدا کیا، اس سے بڑا انقلاب بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ دین ایک چیز ہے اوردین کے جو اجارہ دار بن جاتے ہیں وہ دوسری۔ جس نظام میں مختلف قسم کے طبقات ہوتے ہیں اور ہر طبقے کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اس میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ دین عوام کی بھلائی کیلئے اور خلق خدا کی بہبود کیلئے آیا ہے۔ اسکی ترغیب دی جا رہی ہے یا نہیں۔ ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی حمایت کسی بھی دین میں جائز نہیں ہے۔ دین کے صحیح معانی یہی ہیں کہ وہ خلق خدا کی بہتری اور بہبود کیلئے ہے۔ فیض صاحب انسانیت کے علمبردار تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’ہماری تہذیب کے دو عناصر ہیں ایک اسلام اور دوسرا پاکستانیت‘‘ اسی طرح پاکستانی تہذیب اپنے مقامی فنون، رسوم، رہن سہن، اپنے ادب زبان اور مقامی اجزا کو اپناتی ہے۔ فیض صاحب اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دوسری زبانوں کو بھی اہمیت دیتے تھے کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ ہماری مقامی زبانیں بھی ہیں۔ ان زبانوں کی اپنی تاریخ اور اپنا متمول ادب اور اپنی تہذیبی اہمیت ہے۔ فیض احمد فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے روشنی دی۔ زندگی کا شعور بخشا اور دنیا کی نئی تہذیب کا نکھار بھی دیا۔ فیض کی شاعری نئی قدروں اور نئے خوابوں کی شاعری ہے۔ عربی ادب کے مطالعے نے فیض صاحب کی شاعری پر اثرات مرتب کیے اور انھوں نے اسے جگہ جگہ استعمال کیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024