جناب صدر آپکا شکریہ!!!!

صدر پاکستان عارف علوی کہتے ہیں کہ حکومت کو مافیاز سے نمٹنے کے لیے ہمت کرنا ہو گی ۔آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کی چھٹی ہونی چاہیے۔
ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے اور جو فیصلے کئے اس کا اثر مہنگائی کی صورت میں نکلا۔ بجلی اور دیگر چیزوں پر سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی بڑھی تاہم اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھاکہ آٹا بحران پر کچھ گورننس کے مسائل بھی تھے، آٹا باہر نہیں بیچنا چاہیئے تھا بیچا گیا پھر قلت ہوئی تو منگوایا گیا ، یہ ٹھیک نہیں۔ آٹے کابحران انتظامی معاملہ ہے اوراسے حل کرنا چاہیئے اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی بھی ہونی چاہیے۔
صدر پاکستان کے یہ خیالات وزیراعظم عمران خان تک جانے چاہئیں اور گذشتہ ایک برس کے سائرن بھی انکی میز پر ہونے چاہئیں یہ کام وزرات اطلاعات و نشریات یا وزیراعظم کے آفس کا ہے کہ وہ انہیں بتائے کہ ہم گذشتہ ایک برس سے کیا لکھ رہے ہیں انہیں کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے انہیں مافیاز کا بھی بتایا ہے لیکں بد قسمتی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انہوں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ اپوزیشن کا تو کام ہی احتجاج ہے اور مہنگائی ایک حقیقی مسئلہ ہے اس پر اپوزیشن احتجاج نہ بھی کرے تو عوام اور سوشل میڈیا پر جو کچھ حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بہرحال جناب صدر آپ کا شکریہ کہ آپ نے آٹے کے بحران کو انتظامی ناکامی قرار دیا ہے۔ عین ممکن ہے سچ بولنے پر وزیراعظم آپ سے ناراض بھی ہو جائیں کیونکہ ہمیں تو سچ بولنے اور مافیا کی نشاندہی اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے پر یہی پیغام ملا تھا کہ وزیراعظم بہت ناراض ہیں۔ سائرن تو بجنے کے لیے ہے اور بجتا ہی رہے گا۔
اب ذرا چند خبروں کا سوالیہ جائزہ لیتے ہیں۔
کیا مہنگائی حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے ہے؟؟؟
سادہ جواب بالکل، غیر سنجیدہ رویہ تو چھوٹا لفظ ہے اس سے بھی سخت الفاظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وزراء کو یہ سمجھ ہی نہیں ہے کہ پرائس کنٹرول کس بلا کا نام ہے اور اس شعبے میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ قیمتوں کو قابو میں کیسے رکھنا ہے اور سٹیک ہولڈرز کو ساتھ کیسے ملانا ہے۔
کیا حکومت مہنگائی پر قابو پا سکتی؟؟؟
جس طرح کے فیصلے دیکھنے کو مل رہے ہیں مشکل ہے کہ موجودہ ٹیم کے ساتھ اس شعبے میں کوئی بہتری ممکن ہے۔ ناصرف ٹیم بلکہ منصوبہ بندی و حکمت عملی بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر نہیں کرتے تو پھر عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام باہر نہ بھی نکلے تو کوئی بے بس اللہ کو پکارے گا ممکن ہے اس کہ بددعا سنی جائے اور وقت پورا ہو جائے۔ کچھ بھی ممکن ہے۔
بعض وفاقی وزراء کی طرف سے وزیراعظم کے ریلیف پیکج کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟؟
مخالفت کرنے والے وزراء کا موقف ٹھیک ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے کبھی مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا یہ ادارہ تو خود مسائل سے دوچار ہے عوامی مشکلات خاک کم کرے گا۔ مخالفت کرنے والے وفاقی وزراء وزیراعظم کے خیرخواہ ہیں۔ وزیراعظم کو ان وزراء کی بات ضرور سننی چاہیے۔ یہ موقف درست ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر لائنیں لگانے سے مہنگائی کم ہو گی نہ حکومت کو فائدہ ہو گا نہ عوام کے لیے آسانی پیدا ہو گی۔
وزرا کا یہ موقف بھی درست ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے۔
وزراء نے مخالفت اس لیے بھی کی ہے کیونکہ وہ یوٹیلیٹی سٹورز کی حقیقت سے واقف اور جانتے ہیں کہ کام ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑے گا۔ یوٹیلیٹی سٹورز خود بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔
حکومت کے ایسے اقدامات سے ہم ساٹھ ستر کی دہائی میں واپس جا رہے ہیں یہ دو ہزار بیس ہے اس کے اپنے تقاضے ہیں اگر ان تقاضوں کے مطابق اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو سب کا نقصان ہے۔
قومی اسمبلی میں مراد سعید کی شعلہ بیانی کس حد تک درست ہے؟؟
اس حد تک تو درست ہے کہ اپوزیشن پر چڑھائی کر دی جائے انہیں بولنے کا موقع نہ دیا جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزراء وہاں صرف بیان بازی کے لیے موجود ہیں۔ آج تو مہنگائی کے علاوہ اسمبلی میں کوئی بات ہی نہیں ہونی چاہئے تھی بلاول بھٹو سمارٹ کھیلے اور حکومتی بنچوں کا رخ اصل مسئلے سے موڑ دیا۔ اصولی طور پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے علاوہ کسی بھی قسم کی بحث کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ن لیگ کا پارلیمنٹ کے باہر مہنگائی کے خلاف احتجاج!!!
پارلیمنٹ کی موجودگی میں احتجاج کے لیے باہر آ کر یہ احتجاج کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اصل کام عمارت کے اندر ہے لیکن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے باہر کا ماحول زیادہ اچھا لگتا ہے اس لیے اپوزیشن والے وہاں جمع ہوتے ہیں۔
ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش بنانے کا پلان سپریم کورٹ میں جمع!!
اس پلان کا عدالت میں کیا کام ہے۔ وزیر ریلوے کیا عوام کو بتائیں گے اب تک ریلوے کی بحالی کے لیے انہوں نے کیا کیا ہے۔ حادثات کی تعداد بڑھی ہے لیکن وزیر ریلوے کی پھرتیاں ہی ختم نہیں ہوتیں انہیں پلانز کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات بارے جواب جمع کرانا چاہئے۔ ریلوے کی کارکردگی سے عوام خوش نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی بہتری کی امید نظر آ رہی ہے۔